لہٰذا اسوئہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں پیر کے روز صرف روزہ رکھنا ثابت ہے،آپ کی ولادت باسعادت کا جشن منانانہیں!!۔
12- جشن عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں اکثر و بیشتر منکرات اور مفاسد کی بھرمار ہوتی ہے،چنانچہ اس طرح کی محفلوں میں شریک ہونے والے اور ان کا مشاہدہ کرنے والے اس سے بخوبی واقف ہیں۔بطور مثال(ان مجلسوں میں انجام پانے والے)چند حرام اور منکر امور درج ذیل ہیں:
اولاً:میلادی حضرات جوبھی قصائد یا مدحیہ اشعار ان محفلوں میں گاتے ہیں ان میں سے اکثر و بیشتر اشعار شرکیہ کلمات،غلو آرائی اور مبالغہ آمیزی سے خالی نہیں ہوتے؛ جن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے،ارشاد ہے:
’’لا تطروني کما أطرت النصاری عیسی ابن مریم فإنما أنا عبدہ،فقولوا:عبد اللّٰه ورسولہ‘‘[1]۔
تم(حدسے زیادہ تعریفیں کرکے)مجھے حد سے آگے نہ بڑھاؤ جیسا کہ نصاریٰ(عیسائیوں)نے عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کوحد سے آگے بڑھا دیا تھا،میں اللہ کا بندہ ہوں،لہٰذا مجھے اللہ کا بندہ اور رسول ہی کہو‘‘۔
ثانیاً:میلاد کی ان محفلوں میں دیگر حرام کاریاں بھی ہوتی ہیں،مثلاً مردوزن کااختلاط،گانے بجانے،ڈھول تاشے کے آلات کا استعمال،نشا آور اشیاء کا استعمال،اور بسا اوقات ان محفلوں میں شرک اکبر تک کا ارتکاب کیا جاتا ہے،جیسے رسول گرامی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات یا دیگر اولیاء کرام سے استغاثہ(فریاد)وغیرہ کرنا،اسی طرح قرآن کریم کی بے حرمتی کی جاتی ہے،چنانچہ اسی مجلس میں بیٹھ کر لو گ سگریٹ نوشی کرتے ہیں،اسی طرح ان مجلسوں میں بے حساب فضول خرچی بھی ہوتی ہے،نیز ان ایام میں مساجد میں سراسر باطل پر مبنیٰ ذکر کی مجلسیں اور حلقے قائم کئے جاتے ہیں جن میں بڑے زور زور سے لوگ قوالیاں گاتے ہیں اور حلقۂ ذکر کا رئیس تیزی سے تالیاں بجاتا ہے،یہ ساری چیزیں باتفاق علماء حق،باطل اور حرام ہیں[2]۔
|