ینقص من أجورھم شيئٌ،ومن سن في الإسلام سنۃً سیئۃً کان علیہ وزرھا ووزر من عمل بھا من بعدہ من غیر أن ینقص من أوزارھم شيئٌ ‘‘[1]۔
جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ شروع کیا تو اسے اسکااجرملے گا اوران لوگوں کا اجر بھی جواس کے بعداس پرعمل کریں گے لیکن خود ان کے اجر میں کوئی کمی نہ ہوگی،اور جس نے اسلا م میں کوئی برا طریقہ شروع کیاتو اس پر اس کا گناہ ہوگا اور ان لوگوں کاگناہ بھی جنھوں نے اس پر عمل کیا لیکن خود ان کے گناہ میں کوئی کمی نہ ہوگی۔
(6)عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک انتہائی بلیغ نصیحت فرمائی جس سے دل دہل گئے آنکھیں اشکبار ہوگئیں،تو ہم نے کہا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم،گویا یہ رخصت کرنے والے کی نصیحت ہے لہٰذا آپ ہمیں وصیت فرمایئے،آپ نے فرمایا:
’’ أوصیکم بتقوی اللّٰه،والسمع والطاعۃ،وإن تأمر علیکم عبد،فإنہ من یعش منکم بعدي فسیری اختلافاً کثیراً،فعلیکم بسنتي وسنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین عضوا علیھا بالنواجذ،وإیاکم ومحدثات الأمور،فإن کل بدعۃ ضلالۃ ‘‘[2]۔
میں تمہیں اللہ کے تقویٰ اور سمع وطاعت کی وصیت کرتا ہوں اگر چہ غلام ہی تمہارا امیرکیوں نہ ہو،کیونکہ تم میں سے جومیرے بعد زندہ رہے گاوہ بہت زیادہ اختلافات دیکھے گا،لہٰذا،تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو،اسے مضبوطی سے تھام لو،اوراسے دانتوں سے خوب اچھی طرح جکڑ لو،اور اپنے آپ کو نئی ایجاد شدہ باتوں سے بچاؤ،اس لئے کہ ہر بدعت گمراہی ہے۔
(7)حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں:لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر(بھلائی ونیکی)
|