کے متعلق پو چھاکرتے تھے،اور میں آپ سے شر(برائی وگناہ کے کام)کے بارے میں پوچھتا تھا تاکہ ان میں واقع ہونے سے بچوں،چنانچہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم جاہلیت اور شر میں مبتلا تھے کہ اللہ نے ہمیں اس خیر(نعمت ِاسلام)سے سرفراز فرمایا،تو کیا اس خیر کے بعد بھی کوئی شر ہے؟،آپ نے فرمایا:’’ہاں‘‘،میں نے کہا:کیا اس شر کے بعد پھر کوئی خیر ہوگا؟،آپ نے فرمایا:’’ہاں،لیکن اس میں کدورت اور خرابیاں ہوں گی‘‘(یعنی وہ خالص خیر نہ ہوگا)میں نے عرض کیا:وہ خرابیاں کیا ہوں گی؟،آپ نے فرمایا:’’قوم یستنون بغیر سنتي،ویھدون بغیر ھدیي،تعرف منھم وتنکر‘‘،کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو میری سنت کے علاوہ پر چلیں گے،اور میری راہ کے علاوہ کے ذریعہ لوگوں کی رہنمائی کر یں گے،ان کی بعض باتیں معروف(صحیح)ہوں گی اور بعض منکر(غلط)‘‘،میں نے عرض کیا:کیا اس خیر کے بعد پھرکوئی شرہوگا؟فرمایا:’’نعم،دعاۃ علی أبواب جھنم من أجابھم إلیھا قذفوہ فیھا‘‘ ’’ہاں،کچھ لوگ جہنم کے دروازہ پر بیٹھے آواز لگارہے ہوں گے،جو ان کی بات مان لے گا وہ اسے جہنم میں ڈھکیل دیں گے‘‘،میں نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کے اوصاف بتا دیجئے،آپ نے فرمایا:’’نعم،قوم من جلدتنا ویتکلمون بألسنتنا‘‘،’’ہاں،وہ ہماری طرح کے لوگ ہوں گے،اور ہماری ہی زبان بولیں گے‘‘ میں نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اگر میں ان سے دوچار ہوں تو کیا کروں؟ آپ نے فرمایا:’’تلزم جماعۃ المسلمین،وإمامھم‘‘،’’مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کو لازم پکڑو‘‘،میں نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول،اگر مسلمانوں کی کوئی جماعت اور ان کا کوئی امام ہی نہ ہو تو کیاکروں؟ فرمایا:’’فاعتزل تلک الفرق کلھا،ولو أن تعض علی أصل شجرۃ حتی یدرکک الموت وأنت علی ذلک‘‘،’’ان تمام فرقوں سے کنارہ کش ہو جاؤ،چاہے مرتے دم تک کسی درخت کی جڑ کیوں نہ چباناپڑے‘‘[1]۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ’’یھدون بغیر ھدیي‘‘(میری راہ کے علاوہ
|