كُسَالَىٰ وَلَا يُنفِقُونَ إِلَّا وَهُمْ كَارِهُونَ(٥٤)﴾[1]۔
کہہ دیجئے کہ تم خوشی یا نا خوشی کسی طرح بھی خرچ کرو تم سے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا‘ یقینا تم فاسق لوگ ہو۔ان کے نفقات کے قبول نہ کئے جانے کا سبب اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے منکر ہیں اور بڑی کاہلی سے نماز کو آتے ہیں اور بادل ناخواستہ ہی خرچ کرتے ہیں۔
ان دونوں آیتوں میں منافقین کی درج ذیل قبیح صفات ہیں:
1- اللہ تعالیٰ نے انہیں فسق کے وصف سے متصف کیا ہے‘ فرمایا:﴿إِنَّكُمْ كُنتُمْ قَوْمًا فَاسِقِينَ﴾یقینا تم فاسق لوگ ہو۔
2- انہوں نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کیا ہے۔
3- بڑی کاہلی سے نماز کو آتے ہیں۔
4- اللہ کی راہ میں بادل ناخواستہ ہی خرچ کرتے ہیں۔
ان صفات میں منافقین اور ان کا کرتوت اپنانے والوں کے لئے حددرجہ کی مذمت ہے‘ لہٰذا ہر شخص کو چاہئے کہ فسق سے دور رہے‘ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے‘ نماز کے لئے اس طرح حاضر ہو کہ دل و جسم ہر اعتبار سے چاق و چوبند ہو‘ اللہ کی راہ میں شرح صدر اور زندہ دلی کے ساتھ خرچ کرے ‘ صرف اللہ ہی سے اس کے اجروثواب کی امید رکھے،اور منافقوں کی مشابہت اختیار نہ کرے۔
ششم:اللہ عز وجل کا ارشاد ہے:
﴿يَحْذَرُ الْمُنَافِقُونَ أَن تُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ سُورَةٌ تُنَبِّئُهُم بِمَا فِي قُلُوبِهِمْ ۚ قُلِ اسْتَهْزِئُوا إِنَّ اللّٰهَ مُخْرِجٌ مَّا تَحْذَرُونَ(٦٤)وَلَئِن سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ ۚ قُلْ أَبِاللّٰهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ(٦٥)لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ ۚ إِن نَّعْفُ عَن طَائِفَةٍ مِّنكُمْ نُعَذِّبْ طَائِفَةً بِأَنَّهُمْ كَانُوا مُجْرِمِينَ(٦٦)﴾[2]۔
|