اور آپ نصیحت فرمایئے کیونکہ نصیحت مومنوں کو فائدہ پہنچاتی ہے۔
یہ اس لئے کہ ایمان‘ صاحب ایمان کو علمی و عملی طور پر حق کی پابندی اور اس کی اتباع پر آمادہ کرتا ہے،ساتھ ہی ساتھ اس کے پاس نفع بخش نصائح کے حصول کا عظیم آلہ اور پوری تیاری ہوتی ہے اور حق کی قبولیت اور اس پر عمل سے کوئی چیز مانع نہیں ہوتی۔
(15)ایمان ‘صاحب ایمان کو خوشی میں شکر گزاری ‘ پریشانی میں صبر اور اپنے تمام اوقات میں خیر و بھلائی حاصل کرنے پر آمادہ کرتا ہے،اللہ عزوجل کا ارشاد گرامی ہے:
﴿مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ مِّن قَبْلِ أَن نَّبْرَأَهَا ۚ إِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ يَسِيرٌ(٢٢)لِّكَيْلَا تَأْسَوْا عَلَىٰ مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آتَاكُمْ وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ(٢٣)﴾[1]۔
تمہیں جو کوئی مصیبت دنیا میں یا(خاص)تمہاری جان میں پہنچتی ہے قبل اس کے کہ ہم اسے پیدا کریں وہ ایک خاص کتاب میں لکھی ہوئی ہے‘ بلا شبہہ یہ چیز اللہ تعالیٰ کے لئے(نہایت)آسان ہے۔تاکہ تم اپنے سے فوت شدہ کسی چیز پر رنجیدہ نہ ہو اور نہ عطا کردہ کسی چیز پر اتراؤ‘ اور اللہ تعالیٰ اترانے ‘ فخر کرنے والے سے محبت نہیں کرتا۔
نیز ارشاد باری ہے:
﴿مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللّٰهِ وَمَن يُؤْمِن بِاللّٰهِ يَهْدِ قَلْبَهُ ۚ﴾[2]۔
جو بھی مصیبت پہنچتی ہے وہ اللہ کے حکم سے ہوا کرتی ہے،اور جو اللہ پر ایمان لائے اللہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے۔
اگر ایمان کے ثمرات میں سے صرف یہی ہوتا کہ ایمان‘ صاحب ایمان کو مصائب و مشکلات میں ‘ جن سے ہر ایک دوچار ہوتا ہے‘ تسلی دیتا ہے تو بھی کافی تھا،جب کہ ایمان و یقین سے شرف یابی(بذات خود)
|