مصائب میں تسلی کا عظیم ترین سبب ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’عجباً لأمر المؤمن إن أمرہ کلہ خیر،ولیس ذلک لأحد إلا للمؤمن:إن أصابتہ سراء شکر،فکان خیراً لہ،وإن أصابتہ ضراء صبر فکان خیراً لہ‘‘[1]۔
مومن کا معاملہ بڑا عجیب ہے‘ اس کا سارا معاملہ خیر ہی خیر ہے،اور یہ شرف صرف مومن ہی کو حاصل ہے‘ اگر اسے کوئی خوشی حاصل ہوتی ہے تو وہ شکر ادا کرتا ہے اور وہ اس کے لئے بہتر ہوتا ہے اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ اس پر صبر کرتا ہے اور وہ اس کے لئے بہتر ہوتا ہے۔
صبر وشکر تمام بھلائیوں کا سر چشمہ ہیں،مومن اپنے تمام اوقات میں بھلائیوں کو غنیمت جانتا ہے اور ہر حالت میں فائدہ اٹھاتا ہے،نعمت و خوشحالی کے حصول پر اسے بیک وقت دو نعمتیں حاصل ہوتی ہیں:محبوب و پسندیدہ امر کے حصول کی نعمت،اور اس سے بڑھ کر اس پر شکرگزاری کی توفیق کی نعمت،اور اس طرح اس پر نعمتوں کی تکمیل ہوتی ہے،اور پریشانی سے دوچار ہونے پر اسے بیک وقت تین نعمتیں حاصل ہوتی ہیں:گناہوں کے کفارہ کی نعمت،اس سے بڑھ کر مرتبہ صبر کے حصول کی نعمت،اور اس پر پریشانی کے آسان اور سہل ہونے کی نعمت،کیونکہ جب اسے اجر و ثواب کے حصول کی معرفت اور صبر کی مشق ہوگی تو اس پر مصیبت آسان اور سہل ہوجائے گی[2]۔
(16)سچا ایمان ‘ شک و شبہہ ختم کر دیتا ہے اور ان تمام شکوک کی جڑ کاٹ دیتا ہے جو بہت سے لوگوں کو لاحق ہو کر انہیں دین کے اعتبار سے نقصان پہنچاتے ہیں،جن و انس کے شیاطین اور برائی کا حکم دینے والے نفوس کے پیدا کردہ شکوک و شبہات کی بیماریوں کا سچے ایمان کے سوا کوئی علاج نہیں،اللہ عز وجل کاارشادہے:
﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللّٰهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا﴾[3]۔
بیشک(سچے حقیقی)مومن وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور پھر شک میں مبتلا
|