اور مومنوں کو خوشخبری سنا دیجئے۔
(اس آیت کریمہ میں)اللہ نے بشارت کا مطلق ذکر فرمایا ہے تاکہ ہر طرح کی دیر سویر بھلائی کو شامل ہو،جب کہ درج ذیل آیت کریمہ میں بشارت کا مقید ذکر فرمایا ہے:
﴿وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ﴾[1]۔
اور ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو اس بات کی بشارت دیدیجئے کہ ان کے لئے ایسی جنتیں ہوں گی جن کے نیچے نہریں جاری ہیں۔
چنانچہ اہل ایمان کے لئے عام اور خاص خوشخبری ہے،اور انہی کے لئے دنیا و آخرت میں عمومی امن بھی ہے،جیساکہ ارشاد باری ہے:
﴿الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُم بِظُلْمٍ أُولَـٰئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُم مُّهْتَدُونَ(٨٢)﴾[2]۔
جو لوگ ایمان لائے اوراپنے ایمان کو ظلم(شرک)کے ساتھ گڈمڈ نہیں کیا‘ ایسے ہی لوگوں کے لئے امن ہے اور وہی راہ راست پر گامزن ہیں۔
اور انہی کے لئے خاص امن بھی ہے،جیساکہ ارشاد ہے:
﴿فَمَنْ آمَنَ وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ(٤٨)﴾[3]۔
توجو ایمان لے آئے اور اصلاح کر لے ایسے لوگوں کو نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔
چنانچہ(اس آیت کریمہ میں)اللہ تعالیٰ نے ان سے مستقبل کے خوف و ہراس کی اور ماضی کے رنج والم کی نفی فرمائی ہے،اور اسی سے ان کا امن و قرارمکمل ہوتا ہے،غرضیکہ مومن کے لئے دنیا و آخرت میں مکمل امن و سکون اور ہر خیر کی بشارت ہے[4]۔
|