پیسہ بھی جمع ہوتا ہے اور اس کا حساب پورا پورا رکھا جاتا ہے اللہ تعالیٰ خود اپنی شان والا اس طرح فرماتے ہیں:{اَ لَا لَہُ الْحُکْمُ وَہُوَ اَسْرَعُ الْحَاسِبِیْنَ}(الانعام:۶۲)خبردار ہو حکم صرف اللہ کا چلتا ہے اور وہ حساب لینے میں سب سے زیادہ تیز ہے۔ہر شخص کی کوڑی پائی کا حساب اس کے پاس موجود ہے جب چاہے دو جب چاہے لے۔آیت بالا کے آخر میں ارشاد ہوا {یُوَفَّ اِلَیْکُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ}(الانفال:۶۰)کہ اللہ کے نام دی ہوئی رقم تھوڑی ہو یا بہت بیش قیمت ہو یا کم قیمت اس کا پورا پورا بدل مل کر رہے گا اور اس سلسلہ میں کسی قسم کا ظلم تم پر روانہ رکھا جائے گا۔یہ دراصل اس مالدار دنیا دار کو سبق دینا ہے جو دنیا کے بینکوں میں لاکھوں دے کر ایسا بے غم ہوکر بیٹھتا ہے کہ گویا اس کا پیسہ خود اس کے پاس ہے اور اللہ کی راہ میں پیسہ دیتا ہے تو جھجکتا ہے رکتا ہے بچتا ہے اور سمجھتا ہے کہ یہ پیسہ یونہی جاتا ہے اور کھویا جاتا ہے کہ اے مالدار تو نے بے شک پیسہ جوڑا مگر دین سے منہ موڑا۔عقل کو چھوڑا دنیا کا ہوا اور آخرت سے رہا کھٹکا۔ذرا اپنے نبی مقدس کا فرمان سن اور دل کے کان سے سن اور پھر خود کو دیکھ کر دین میں تیرا کیا مقام ہے اور دنیا میں تیرا کیا نام ہے فرمان رسالت ہے: ((اَلزَّہَادَۃُ فِی الدُّنْیَا لَیْسَتْ بِتَحْرِیْمِ الْحَلَالِ وَلَا اِضَاعَۃَ الْمَالِ وَلٰکِنَّ الزَّہَادَۃَ فِی الدُّنْیَا اَنْ لَّا تَکُوْنَ بِمَا فِیْ یَدَیْکَ اَوْثِقْ بِمَا فِیْ یَدِی اللّٰہِ اِلٰی آخِرِ الْحَدِیْثِ۔))(الترمذی:۲۳۴۰) کہ ترک دنیا حلال کو حرام کرنے اور مال کو ضائع کرنے کا نام نہیں بلکہ ترک دنیا دراصل یہ ہے کہ جو کچھ تیرے ہاتھوں میں ہے اس پر تجھ کو اس قدر بھروسہ نہ ہو جس قدر کہ اللہ کے پاس کی چیز پر بھروسہ ہے۔یعنی اگر کوئی شخص دینداری اور پرہیزگاری کی خاطر دنیا سے اپنا رشتہ اس حد تک توڑ لے کہ حرام سے تو ہر مسلمان پرہیز کرتا ہی ہے یہ حلال چیزوں کو بھی اس جذبے کے ماتحت چھوڑ دے کہ یہ بھی آخر دنیا کی آسائش کے اسباب میں سے ہیں ان کو بھی کیوں برتوں اور مال کو اللہ کی راہ میں بے دریغ لٹائے کہ یہ تو ہے ہی دنیا کا سب سے بڑا پھندا اور اسی میں اکثر پھنستا ہے اللہ کا بندہ تب بھی وہ اس فرمان رسالت کے مطابق تارک |