{وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْئٍ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ یُوَفَّ اِلَیْکُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ}(الانفال:۶۰) ’’کہ تم اللہ کی راہ میں جو کچھ بھی خرچ کرو گے تھوڑا یا بہت وہ پورا پورا تم کو دے دیا جائے گا اور تم پر کسی قسم کا ظلم نہیں ہوگا۔‘‘ سب سے پہلے ’’مِنْ شَیْئٍ‘‘ سے اشارہ فرمایا کہ اے مالدار پہلے تجھ کو ہماری طرف سے یہ سہولت نصیب ہے کہ تو ہمارے پاس اپنے نام پر جو کچھ چاہے جمع کراسکتا ہے۔ایک پیسہ سے لے کر ہزاروں لاکھوں تک دے سکتا ہے۔دنیا کے بینکوں میں کم سے کم جمع شدہ رقم کی مختلف شرحیں رائج ہیں کہیں کتنی اور کہیں کتنی کیونکہ نفع اندوزی کے لیے بیٹھے ہیں نہ مفت میں درد سری کے لیے۔تھوڑی رقم میں فائدہ کم ہے اور دردسری زیادہ اور اللہ کے ہاں نہ فائدہ کا سوال ہے نہ درد سری کا۔فائدہ کے لیے تو اس نے نہایت صاف اور کھلے الفاظ میں فرمادیا ہے {وَقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِکُمْ }(البقرہ:۲۳۳)یعنی تم جو کچھ آگے بھیجو گے اپنا بھلا کرو گے اس سے ہمیں کوئی نفع نہیں۔نہ اس سے ہمیں تجارت چھیڑنی ہے نہ کوئی دھندہ چلانا ہے بس تمہارے لیے جمع رکھنا ہے اور مرکر جب تم آجاؤ تو تم کو جوں کا توں دے دینا ہے۔اب رہی اندراجات کی درد سری تو یہ کھٹک اس طرح مٹی کہ اللہ تعالیٰ کے اندراج کا سب سے بڑا رجسٹر اس کا وسیع علم ہے جس سے دنیا اور آخرت کی کوئی چھوٹی سی چھوٹی چیز بھی خارج نہیں اس لیے فرمایا:{وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیْمٌ }(البقرہ:۲۷۳)یعنی جو کچھ تم خرچ کرتے ہو تو اللہ تعالیٰ اس سے خوب باخبر ہے۔یہاں دنیا کے اندراجات غلط ہوسکتے ہیں مٹ سکتے ہیں کھوسکتے ہیں مگر اللہ کے علم میں آئی ہوئی بات نہ مٹ سکتی ہے نہ بدل سکتی ہے نہ بھول چوک میں آسکتی ہے۔چنانچہ موسیٰ علیہ السلام فرعون کے سامنے اپنے پروردگار کا ان الفاظ میں تعارف فرماتے ہیں {لَا یَضِلُّ رَبِّیْ وَلَا یَنْسٰی}(طٰہ:۵۲)کہ میرا پروردگار نہ چوکتا ہے نہ بھولتا ہے۔پھر ایک پہلو سے یہ غریب کے لیے بھی خوشخبری ہے اور بتاتا ہے کہ امیروں کے بینک تو دنیا میں بھرے پڑے ہیں مگر غریب کا بینک صرف اللہ کے پاس ہے جہاں پیسہ دو |