Maktaba Wahhabi

96 - 131
میں یہودیت کیوں رچائی بسائی‘ ان کو مسلمانوں کے شعار کیوں نہ سمجھائے؟ المیہ یہ ہے کہ مسلمان اپنے بچوں کو بچپن سے نیکر (انڈر ویئر) اور بوشرٹ جس کے بازو نہ ہوں پہناتا ہے اور یہ صرف بچے نہیں بچیاں بھی پہنتی ہیں ادھر والدین پینٹ بلاؤز پہنتے ہیں تو بتائیں وہ اغیار کے غلام کیوں نہ ہوں کیونکہ بچے نے جو دیکھنا ہے جس پر اس کی پرورش و تربیت کی گئی ہے آفرینش سے اسی کے مطابق زندگی گزارنی ہے۔ اور پھر ماشاء اللہ تعلیم بھی صرف انگریزی اور دنیا کی‘ دین کا نام بھی نہیں تو پھر بڑے ہو کر خرابیاں سامنے لاتے ہیں تو پھر والدین کو اٹیک ہونے لگتے ہیں۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے: طفل میں بو آئے کیا دین و قرآن کے اطوار کی دودھ تو ڈبے کا اور تعلیم ہے سرکار کی اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تو آئے تھے بہترین اخلاق لے کر اور تمام اچھے خصائل کو مکمل کرنے کے لیے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خود فرماتے ہیں کہ: ((اِنَّمَا بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ صَالِحَ الَٔاخْلَاقِ۔))[1] ’’میں تو صرف اچھے اخلاق کو مکمل کرنے آیا ہوں۔‘‘ تو بچوں کو بچپن سے اگر نیکی اور نیک لوگوں سے متعارف کروایا جائے گا تو تب ہی بات بنے گی کیونکہ شاعر کہتا ہے: اِنَّ الْغُصُوْنَ اِذَا قَوَّمْتَہَا اعْتَدَلَتْ وَ لَنْ تَلِیْنَ اِذَا قَوَّمْتَہَا الْخَشَبُ ’’جب ٹہنیوں کو سیدھا کرنا چاہو تو وہ ہو جائیں گی لیکن اگر لکڑی بن جانے کے بعد سیدھا کرنا چاہو گے تو ہرگز نہیں ہوں گی‘‘ لیکن ہم نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکام کو بھلا دیا تو اللہ تعالیٰ نے بھی ذلت کی مار ماری : {نَسُوا اللّٰہَ فَنَسِیَہُمْ} (الحشر :۱۹) ’’وہ اللہ تعالیٰ کو بھول گئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے آپ ہی سے بھلا دیا۔‘‘ مسلمان کو تو چاہیے کہ وہ شک سے بچے تاکہ وہ کسی محظور میں واقع نہ ہو جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے
Flag Counter