سکتا ہو تو اس عورت کو چاہیے کہ وہ اپنے اس غلام سے پردہ کرے۔‘‘ تو گویا مالکہ کے لیے اپنے غلام کے سامنے اس وقت تک چہرہ کھلا رکھنا جائز ہے جب تک وہ اس کی ملکیت میں ہو جیسا کہ قرآن مجید میں ہے کہ {أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُہُنَّ} (النور : ۳۱) ’’اپنے غلاموں کے سامنے ہاتھ اور چہرے کو ننگا کر سکتی ہیں۔‘‘ لیکن اگر اس کی ملکیت ختم ہو جائے تو اس پر پردہ کرنا واجب ہے کیونکہ اب وہ غیر محرم ہو گیا ہے اور یہی چیز مذکورہ حدیث باور کروا رہی ہے کہ اگر اس کے پاس اتنی رقم ہے کہ اس کی ملکیت سے وہ نکل جائے تو مالکن کو اس سے پردہ کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو دین کا صحیح فہم دے۔ (آمین) آج کل کتنے ہی مسلمان اپنے موقت نوکروں کو مکاتب کے حکم میں کرکے پردے اٹھا دیتے ہیں جن کو سوچنا چاہیے کہ ایک غلطی کہاں تک پہنچا دیتی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ گشت کر رہے تھے کہ اچانک ایک عورت کی آواز سنی جو یہ شعر پڑھ رہی تھی: ہَلْ مِنْ سَبِیْلٍ اِلٰی خَمْرٍ فَاَشْرَبُہَا اَمْ ہَلْ مِنْ سَبِیْلٍ اِلٰی نَصْرِ بْنِ حَجَّاجٍ ’’کیا کوئی شراب تک رسائی کا ذریعہ ہے کہ میں (جی بھر کے) پی سکوں اور کیا نصر ابن حجاج تک پہنچنے کا کوئی راستہ ہے کہ (اسے جی بھر کر) دیکھ سکوں۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نصر بن حجاج کو بلایا تو دیکھا کہ وہ نہایت خوبصورت نوجوان تھا تو آپ نے اس کے سر کے بال منڈوا دئیے اس سے اس کی خوبصورتی میں اور زیادہ اضافہ ہو گیا تو پھر آپ نے اس کو بصرہ کی طرف جلا وطن کر دیا تاکہ عورتیں اس کی وجہ سے فتنہ میں نہ پڑیں۔ ۱۵: عائشہ وابن زبیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ عتبہ نام کے ایک شخص نے ام المومنین سودہ رضی اللہ عنہا کے والد زمعہ کی لونڈی سے ناجائز فعل کیا جس سے ایک لڑکا پیدا ہوا چنانچہ چند روز عتبہ کے بھائی سعد بن ابی وقاص اور ام المومنین سودہ کے بھائی عبد بن |