جواب:جب عورت نے لڑکی کو دوسال کی مدت کے اندر پانچ رضعات دودھ پلایا تو یہ لڑکی اس عورت کی رضاعی بیٹی بن جائے گی اور دودھ پلانے والی کے تمام لڑکے دودھ پینے والوں کے خواہ وہ مذکر ہوں یا مؤنث اور رضاعت سے پہلے پیدا ہوئے یا بعد میں رضاعی بھائی بن جائیں گے۔ لہٰذا دودھ پلانے والی کے کسی لڑکے کو دودھ پینے والی سے شادی کرنا جائز نہ ہو گا لیکن دودھ پینے والی کی ان بہنوں کے لیے دودھ پلانے والی کے لڑکوں سے شادی کرنا جائز ہوگا جبکہ انھوں نے دودھ نہ پیا ہو۔پس اس کی اس بہن کو اس لڑکے سے شادی کرنا جائز ہوگاجس نے اس کی ماں سے دودھ نہیں پیا۔اور اس لڑکی نے اس لڑکے کی ماں سے دودھ نہیں پیا۔ رہی یہ دودھ پینے والی تو یہ اس کو دودھ پلانے والی کے کسی لڑکے سے شادی نہیں کر سکتی ۔ اس پر ائمہ کا اتفاق ہے۔
اس مسئلے میں اصل یہ ہے کہ بلا شبہ دودھ پلانے والی دودھ پینے والی کی رضاعی ماں بن جاتی ہے، لہٰذا پینے والی پر پلانے والی کے لڑکے حرام ہو جاتے ہیں کیونکہ پلانے والی کے بھائی پینے والی کے ماموں اور اس کی بہنیں اس کی خالائیں بن جاتی ہیں، اور جس آدمی کا دودھ ہوتا ہے وہ اس کا رضاعی باپ بن جا تا ہے اور اس آدمی کے اس عورت سے اور دوسری عورتوں سے پیدا ہونے والے لڑکے اس لڑکی کے رضاعی بھائی بن جاتے ہیں اور آدمی کے بھائی اس لڑکی کے چچا اور اس کی بہنیں اس کی پھوپھیاں بن جاتی ہیں اور دودھ پینے والا اس کے لڑکے اور اس کے لڑکوں کے لڑکے دودھ پلانے والی کے اور اس آدمی کے جس کی وطی کے نتیجہ میں دودھ پیدا ہوا ہے رضاعی بیٹے بن جاتے ہیں۔
رہے دودھ پینے والے کے بھائی اور بہنیں اس کا نسبی باپ اور ماں وہ اجنبی ہیں، ان پر اس رضاعت کی وجہ سے کچھ حرام نہیں ہوتا اور اس پر تمام ائمہ اربعہ کا اتفاق ہے۔ اگرچہ اس کے علاوہ دیگر مسائل میں ان کا اختلاف ہے۔(ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ )
رضاعی بھائی کی بیٹی سے شادی کرنے کا حکم:
سوال:ایک آدمی نے دوسرے آدمی کے ساتھ دودھ پیا ،ان میں سے ایک کے ہاں لڑکی پیدا ہوئی ۔کیا دودھ پینے والے کے لیے اس لڑکی سے شادی کرنا جائز ہے؟
|