اس عورت کے نکاح کو جائز نہ کرے،اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے قول کے مطابق اس عورت کو مرد کے محرمات میں سے شمار نہ کرے۔اور اگر وہ احتیاطی موقف چاہے تو یہی اس کے لیے پسندیدہ صورت ہوگی کیونکہ اس محتاط موقف کی تائید سنت سے بھی ہوتی ہے۔
وہ اس طرح کہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اور عبد بن زمعہ کے درمیان زمعہ کے لڑکے کے متعلق تنازع کھڑا ہوا تو سعد رضی اللہ عنہ نے کہا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !یہ میرے بھائی عتبہ بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا بیٹا ہے۔جس کے متعلق اس نے ہدایت کی تھی،لہذا یہ اس کا بیٹا ہے اور عبد بن زمعہ نے کہا:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !یہ میرا بھائی ہے جو میرے باپ کی لونڈی سے اس کے بستر پر پیدا ہواہے۔سعد رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اس کی شباہت کو دیکھئے،چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کو دیکھا تو وہ عتبہ بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے ہی مشابہت رکھتا تھا،اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد بن زمعہ کے حق میں فیصلہ دیا اور فرمایا:
"انه لك يا عبد بن زمعة ! الولد للفراش، وللعاهر الحجر"[1]
"اے عبد بن زمعہ!یہ تمہارے لیے ہے۔بچہ صاحب فراش کے لیے ہے اور زانی کے لیے پتھر ہے۔"
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا کو،جو امہات المومنین میں سے ہیں،فرمایا:
"احْتَجِبِي مِنْهُ يَا سَوْدَة" "اے سودہ! اس سے پردہ کرو۔"
باوجود اس کے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچے کو ان کا بھائی قرار دیا مگر عتبہ بن ابی وقاص کے ساتھ واضح مشابہت کی وجہ سے ان کوپردہ کرنے کا حکم دیا۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم احتیاط پر مبنی حکم ہے،لہذا پردہ کرنا مشابہت کی وجہ سے ہے اور ا س کے بھائی ہونے کافیصلہ اس وجہ سے ہے کہ وہ ان کےباپ کے بستر پر پیدا ہوا۔
اسی طرح مذکورہ صورت میں عورت رضاعی باپ کی بیوی ہے ۔اگر کوئی کہنے ولا کہے کہ ہم احتیاطی حکم لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس مرد کے لیے اس عورت سے شادی کرنا جائز نہیں ہے تو ہم اس لمحے یہ بھی کہیں گے کہ وہ عورت اس کی محرم بھی نہیں ہے۔(فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمۃ اللہ علیہ )
|