سن یاس کو پہنچنے والی عورت کے دودھ کاحکم:
سوال:اس عورت کے دودھ کاکیا حکم ہے جو سن یاس کو پہنچ چکی ہے،جب وہ کسی بچے کو دودھ پلانا چاہے تو اس کو پانچ رضعات یا اس سے زیادہ دو سال کے اندر پلائے تو کیا یہ دودھ حرمت کا سبب بنے گا؟اور اس کا رضاعی باپ کون ہوگا؟کیونکہ ممکن ہے کہ دودھ پلانے والی بلاخاوند کے ہو۔
جواب:بلاشبہ رضاعت سے حرمت ثابت ہوتی ہے۔ اس سے اتنے ہی رشتے حرام ہوتے ہیں جتنے نسب سےحرام ہوتے ہیں۔بلاشبہ جس رضاعت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ دوسال کے اندر پانچ رضعات ہے تو اس بنا پر دودھ پلانے والی دودھ پینے والے کی رضاعی ماں ہوگی اللہ تعالیٰ کے عمومی فرمان کی وجہ سے:
"وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِي أَرْضَعْنَكُمْ "(النساء:23)
"اور تمہاری وہ مائیں جنھوں نے تمھیں دودھ پلایا ہو۔"
اگرچہ اس عورت کو یہ دودھ سن یاس کو پہنچنے کے بعد اترا ہو۔پھر اگر وہ عورت خاوند والی ہے تو دودھ پینے والابچہ اس عورت کا بیٹا ہوگا اور اس شخص کا بھی بیٹا ہوگا جس کی طرف اس عورت کے دودھ کی نسبت کی گئی ہے۔اور اگر وہ عورت خاوند والی نہیں ہے اس طرح کہ اس نے شادی نہیں کی ،پھر اسے دودھ اتر آیا ہوتو وہ اس لڑکے کی،جس کواس نے دودھ پلایا ہے،ماں ہوگی اور اس لڑکے کا رضاعی باپ کوئی نہیں ہوگا۔
آپ اس بات پر حیران مت ہوں کہ کسی بچے کی رضاعی ماں تو ہو اور اس کا رضاعی باپ نہ ہو،نیز آپ اس امر پر بھی حیران نہ ہوں کہ اس کا رضاعی باپ تو ہو مگر رضاعی ماں نہ ہو۔
پہلی صورت میں فرض کرو کہ ایک عورت نے اس بچے کو دورضعات ایسے دودھ سے پلایا جو اس کو خاوند کی وجہ سے پیدا ہوا،پھر اس کے خاوند نے اس کو اپنے دے جدا کردیا،اور اس عورت نے عدت پوری ہونے پر ایک اور خاوند سے شادی کرلی اور وہ اس سے حاملہ ہوئی اور ایک بچے کو جنم دیا اور اس نے پہلے بچے کو باقی کی تین رضعات سے دودھ
|