Maktaba Wahhabi

557 - 670
اور جب رضعات کی تعداد میں اختلاف ہوجائے تو حرمت رضاعت کا حکم ثابت نہیں ہوتا کیونکہ پانچ رضعات کا معلوم ومتحقق ہونا ضروری ہے۔ جبکہ ورع اور احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ سائل اس لڑکی سے شادی کا خیال ترک کر دے اور کسی اور کو پیغام نکاح دے لے لیکن وہ لڑکی اس سائل کے لیے حرام نہیں ہوگی کیونکہ حرمت پیدا کرنے والی رضاعت کاثبوت نہیں ہے۔اور اگر وہ اس لڑکی سے نکاح کااقدام کرلے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے کیونکہ عمومی طور پر رضاعت کا ثبوت نہیں ہے۔ (فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمۃ اللہ علیہ ) رضاعی بیٹے کے لیے دوسری بیوی کا حکم: سوال: کیا رضاعی باپ کی دوسری بیوی اس کے رضاعی بیٹے کے لیے محرم ہوگی جس نے اس کی پہلی بیوی کا دودھ پیا ہے؟ جواب:اس مسئلے میں اہل علم کا اختلاف ہے ،اکثر علماء،بشمول ائمہ اربعہ اور ان کے متبعین ،کہتے ہیں:رضاعی باپ کی بیوی نسبی باپ کی بیوی کی طرح ہے اور یہ بات معلوم ہے کہ نسبی باپ کی بیوی اس کے بیٹے کے لیے حرام ہے ،یعنی اگر آدمی کسی عورت سے شادی کرے اور اس کے دوسری بیوی سے کچھ لڑکے ہوں تو یہ نئی بیوی ان لڑکوں کے لیے حرام ہوگی کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "وَلَا تَنكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُم مِّنَ النِّسَاءِ "(النساء:22) "اور ان عورتوں سے نکاح مت کرو جن سے تمہارے باپ نکاح کرچکے ہوں۔" شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا خیال یہ ہے کہ رضاعی باپ کی بیوی نسبی باپ کی بیوی کی طرح نہیں ہے۔اور بلاشبہ وہ اس کے محرمات میں سے نہیں ہے۔جو اس مسئلے کی تفصیل معلوم کرنا چاہتا ہو وہ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب"زاد المعاد" کامطالعہ کرے، بلاشبہ اس میں ایسی عمدہ بحث ہے جس کو پڑھنے سے وہ قول قوی محسوس ہوگا جس کی طرف شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ گئے ہیں۔ اگر کوئی شخص جمہور کے قول میں درمیانی راہ اختیار کرنا چاہے تو وہ اس مرد کے لیے
Flag Counter