"وَاذْكُرُوا إِذْ كُنتُمْ قَلِيلًا فَكَثَّرَكُمْ " (الاعراف:86)
"اور یاد کرو جب تم بہت کم تھے تو اس نے تمھیں زیادہ کردیا۔"
اور حقیقت واقعی اس بات پر شاہد ہے کہ بلاشبہ امت جتنی زیادہ ہوگی اتنی ہی وہ غیروں سے مستغنی وبے پروا ہوگی،اور ان کا اپنے دشمنوں کے مقابلے میں رعب ودبدبہ ہوگا،لہذا انسان کو جائز نہیں ہے کہ وہ قطعی طور پر نس بندی کروادے،الا یہ کہ اس کی کوئی انتہائی ضرورت ہو،مثلاً ڈر ہو کہ عورت جب حاملہ ہوگی تو اس کی موت واقع ہوجائے گی تو ایسی صورت میں ضرورت کے تحت کوئی حرج نہیں کہ وہ اس عورت کے لیے مانع حمل کوئی طریقہ اختیار کرے،یہ وہ عذر ہے جس کی وجہ سے نسل کشی مباح ہے۔ایسے ہی اگر عورت کے رحم میں کوئی ایسا مرض ہو جس کے متعلق خدشہ ہے کہ وہ مرض باقی جسم میں سرایت کر کے اس کوہلاک کردے گا تو اس کو مجبوراً ر حم نکلوانا پڑے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔(فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمۃ اللہ علیہ )
لڑکی کس قسم کا خاوند منتخب کرے؟
سوال:لڑکی کے لیے خاوند کے انتخاب میں اساسی امور کون سے ہیں؟کیا دنیاوی اغراض کے لیے نیک خاوند سے شادی کرنے کاانکار اسے اللہ کے عذاب کا مستحق بنادے گا؟
جواب:وہ اہم اوصاف جن کی بنیاد پر عورت کو پیغام نکاح دینے والے کا انتخاب کرنا چاہیے وہ یہ ہیں:خوش اخلاقی اور دینداری۔رہا مال اور نسب تو یہ ثانوی حیثیت رکھتے ہیں لیکن اہم چیز یہ ہے کہ پیغام نکاح دینے والا دیندار اور خوش اخلاق ہو کیونکہ دیندار اور خوش اخلاق آدمی سے عورت کو کسی نقصان کا خطرہ نہیں ہوتا کیونکہ اگر وہ اس کو اپنے پاس رکھے گا تو اچھا برتاؤ کرے گا اور اگر اس کو فارغ کر ےگا تو احسان کے ساتھ رخصت کرے گا،پھر یہ کہ دیندار اور خوش اخلاق آدمی خودعورت کے لیے اور اس کی اولادکے لیے بابرکت ہوگا کہ وہ اس سے اخلاق ودینداری کا درس لیں گے،لیکن اگر خاوند ایسا نہ ہو تو عورت ایسے شخص سے دور رہے، خاص طور پر ایسے لوگوں سے جو ادائیگی نماز میں سست ہیں اور شراب نوشی میں مشہور ہیں۔العیاذ باللہ
|