اور شادی سے رکنے سے شادی کی مصلحتیں فوت ہوجاتی ہے،لہذا میں عورتوں کے مسلمان اولیاء اور اپنی مسلمان بہنوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اس تعلیم وتدریس کی تکمیل کی وجہ سے شادی کرنے سے نہ رکیں جبکہ ایسے بھی تو ہوسکتا ہے کہ عورت اپنے خاوند سے شرط لگا لے کہ وہ پڑھائی مکمل کرنے تک تعلیم حاصل کرے گی،اور ایسے ہی یہ شرط لگا سکتی ہے کہ ایک سال یا دو سال،جب تک وہ اولاد کے ساتھ مصروف نہیں ہوتی،تدریس کرے گی۔
میرےخیال کےمطابق جب عورت ابتدائی درجہ کی تعلیم مکمل کرلے اور اس کو لکھنا پڑھنا آجائے اس طرح کہ وہ اس تعلیم کے ذریعے کتاب اللہ اور اس کی تفسیر،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اور ان کی شرح کو پڑھ کر استفادہ کرسکے تو بس اتنی سی تعلیم اس کوکافی ہے،الا یہ کہ وہ ایسے علوم حاصل کرے جس کا حصول لوگوں کے لیے ضروری ہے ،جیسا کہ علم طب اور اس جیسے دیگر علوم لیکن شرط یہ ہے کہ اس قسم کے علوم حاصل کرنے میں اختلاط وغیرہ کا کوئی شرعی مانع نہ ہو۔(فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمۃ اللہ علیہ )
بغیر عذر کے نسل کشی کرنے کا حکم اور ان ضرورتوں کا بیان جن کی وجہ سے نسل کشی جائز ہے:
سوال:ایک بھائی بغیر کسی عذر کے قطع نسل کے حکم کے متعلق سوال کرتاہے، نیز وہ کون سے عذر ہیں جن کی وجہ سے قطع نسل جائز ومباح ہے؟
جواب:ایسی نس بندی کہ جس کے بعد اولاد کا بالکل امکان نہ رہے علمائے کرام کی صراحت کے مطابق حرام ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت سے جس کثرت اولاد کی توقع رکھتے ہیں یہ اس کے خلاف ہے، نیز اس لیے بھی کہ اس میں مسلمانوں کی ذلت کے اسباب ہیں کیونکہ مسلمان جتنے زیادہ ہوں گے اتنے ہی وہ عزت دار اور بلند ہوں گے ،اسی لیے اللہ عزوجل نے بنی اسرائیل کو کثرت عطا فرما کر ان پر اس کا احسان جتلایا۔چنانچہ فرمایا:
"وَجَعَلْنَاكُمْ أَكْثَرَ نَفِيرًا" (الاسراء:6)
"اور تمھیں تعداد میں زیادہ کردیا۔"
اور شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو بطور احسان یہ کثرت یاددلائی اورفرمایا:
|