اس شخص کی اس عورت سے کوئی اولاد نہ ہوئی اور نہ ہی خاوند کے شہر میں عورت کا کوئی قریبی رشتہ دار ہے تو کیا عورت کے لیے جائز ہے کہ اپنے خاوند کے شہر سے اپنے ولی کے شہر میں منتقل ہوجائے؟تاکہ وہاں وہ عدت پوری کرے اور سوگ مناسکے یاجائز نہیں ہے؟
جواب:اس عورت کے لیے جائز ہے کہ جب اس کو اپنی جان کاڈر ہو یا اپنی عزت کا خطرہ ہو اور کوئی اس کے پاس نہ ہوجو اس کی عزت کا محافظ ہوتو وہ اپنے ولی کے گھر منتقل ہوجائے یا کسی بھی جگہ جہاں وہ امن محسوس کرے تاکہ وہ اپنی عدت پوری کرسکے اور اپنے خاوند پرسوگ مناسکے۔
لیکن جب اس کو اپنے متعلق کسی قسم کی دست درازی کا خوف نہ ہوبلکہ وہ صرف اپنے میکے کے قریب رہنا چاہتی ہوتو اس کے لیے وہاں سے منتقل ہوناجائز نہیں ہے۔اس پر واجب ہے کہ وہ اپنے مکان میں ٹھہرے یہاں تک کہ اس کے سوگ کی مدت پوری ہوجائے، پھر وہ اپنے محرم کے ساتھ کہیں بھی چلی جائے۔(سعودی فتویٰ کمیٹی)
عورت اس گھر میں سوگ منائے جہاں اس کو خاوند کی وفات کی خبر پہنچی یا خاوند کے گھر کی طرف پلٹ آئے:
سوال:کیا اس عورت پر لازم ہے جس کا خاوند فوت ہوگیا کہ وہ اسی گھر میں رہ کر سوگ منائے جہاں اسے خاوند کی وفات کی خبر پہنچی یا وہ اپنے خاوند کے گھر میں سوگ منائے؟اور کیا اس کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے میکے وغیرہ میں منتقل ہوجائے؟
جواب:اس کے لیے لازم ہے کہ وہ اسی گھر میں ٹھہرے جہاں وہ سکونت پذیر ہے۔بالفرض اگر اس کو خاوند کے فوت ہونے کی اطلاع اس وقت ملی جب وہ اپنے کسی قریبی رشتے دار کے ہاں ملنے گئی ہوئی تھی تو اس پر لازم ہے کہ وہ اس گھر میں واپس پلٹ آئے جہاں پر وہ رہائش پذیر ہے۔ہم پہلے یہ بیان کر آئے ہیں کہ وہ کون سے پانچ امور ہیں جن سے عورت پرہیز کرے،من جملہ ان کے یہ بھی ہے کہ وہ اپنے خاوند کے گھر سے نہ نکلے۔(فضیلۃالشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمۃ اللہ علیہ )
|