Maktaba Wahhabi

491 - 670
کی خاطر اس کو طلاق دینے کا نہیں کہا بلکہ اپنے بیٹے کے بستر کو بچانے کی خاطر طلاق کا مطالبہ کیا ہے کہ اس کا بستر اس قسم کی گندگی سے آلودہ ہو جائے گا، لہٰذا وہ اس کو طلاق دے دے ۔ 2۔دوسری صورت یہ ہے کہ والد لڑکے کو کہے کہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے ،اس لیے کہ اس کو اپنی بیوی سے بہت محبت ہے اور باپ کو بیٹے کی اس سے محبت کی وجہ سے غیرت آتی ہے اور ماں کو تو کچھ زیادہ ہی غیرت آتی ہے، پس اکثر مائیں جب اپنے بیٹے کو بیوی سے محبت کرتا ہوا دیکھتی ہیں تو ان کو سخت غیرت آتی ہے یہاں تک کہ اس کے بیٹے کی بیوی اس کی سوکن کے درجے میں آجاتی ہے، ہم اللہ تعالیٰ سے عافیت کا سوال کرتے ہیں۔ پس اس حالت میں بیٹے پر لازم نہیں ہے کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے جب اس کا باپ یا ماں اس کو طلاق دینے کا حکم دے لیکن لڑکے کو چاہیے کہ وہ والدین کی خاطر مدارت کرے اور بیوی کو باقی رکھے۔اور والدین کے ساتھ الفت رکھے اور نرم کلامی سے ان کو مطمئن کرے تاکہ وہ دونوں اس کی بیوی کو اپنے پاس رکھنے پر مطمئن ہو جائیں خاص طور پر جب وہ دینی اور اخلاقی اعتبار سے صحیح اور درست ہو۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے ایسا ہی مسئلہ دریافت کیا گیا، ان کے پاس ایک آدمی آیا اور کہا: میرا باپ مجھے حکم دیتا ہے کہ میں اپنی بیوی کو طلاق دے دوں۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے اس شخص کو جواب دیا:اس کو طلاق نہ دینا، اس آدمی نے کہا: کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کو حکم نہیں دیا تھا کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دیں جب کہ عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو ایسا کرنے کے لیے کہا تھا؟امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: کیا تمہارا باپ عمر رضی اللہ عنہ کی طرح ہے؟ اگر باپ اپنے بیٹے پر حجت قائم کرتا ہوا یہ کہے کہ اے میرےبیٹے !بلا شبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے ،جب عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو طلاق دینے کا مطالبہ کیا تھا تو وہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کی طرح جواب دے ،یعنی باپ سے کہے:کیا آپ عمر رضی اللہ عنہ کی طرح ہیں؟ وہ بات میں نرمی اختیار کرے اور کہے :عمر رضی اللہ عنہ
Flag Counter