"مرها أو قل لها : فإن يكن فيها خير فستفعل ،ولا تضرب ظعينتك ضربك لأمتك" [1]
"اس کو (اصلاح ) کا حکم دے یا اس کو (خیر بھلائی کی بات) کہہ، اگر اس میں خیر ہو گی تو وہ تیری بات مانے گی اور اپنی بیوی کو اپنی لونڈی کو مارنے کی طرح نہ مار۔"
امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا: بلا شبہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ آدمی کے لیے اپنی زبان دراز بیوی کو طلاق دینا مستحسن ہے لیکن اس کو کچھ مصلحتوں کی بنا پر اپنی زوجیت میں رکھنا بھی جائز ہے کیونکہ لقیط رضی اللہ عنہ نے جب اپنے اور بیوی کے درمیان حسن سلوک اور اولاد کاعذر پیش کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پاس رکھنے کی اجازت دے دی اور فرمایا:
"مرها أو قل لها، فإن يكن فيها خير فستفعل "
لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ اس کو اپنے پاس روک کر مارے کیونکہ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"ولا تضرب ظعينتك ضربك لأمتك "
یعنی اس کو غلام کی طرح نہ مار، اور اس کو اس صورت میں اپنے پاس رکھ کہ تو اس سے حسن معاشرت کرے اگر تو اسے مارنا چاہتا ہے تو اس کو شرعی سزا دے جو کہ کتاب اللہ میں مذکور ہے:
"وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ "(النساء:34)
"اور وہ عورتیں جن کی نافرمانی سے تم ڈرتے ہو، سو انھیں نصیحت کرو اور بستروں میں ان سے الگ ہو جاؤ اور انھیں مارو۔"
لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" فَاضْرِبُوهُنَّ ضَرْبًا غير مُبَرِّحٍ" [2]
|