جواب:قبل اس کے کہ میں اس سوال کا جواب دوں میں یہ چاہوں گا کہ خاوندوں کو نصیحت کروں کہ وہ(لفظ) طلاق بولنے میں جلد بازی کا مظاہرہ نہ کیا کریں کیونکہ یہ بڑا سنگین معاملہ ہے۔نکاح کا مسئلہ عقود میں سب سے سنگین مسئلہ ہے ،تمھیں ایساکوئی عقد نہیں ملے گا جس میں شریعت نے اس قدر اعتنا برتا ہو اور جس کی ابتدا وانتہا اور عقد وفسخ میں احتیاط کی تعلیم دی ہو جتنی کہ نکاح کے مسئلے میں محتاط ہونے کی تعلیم دی ہے کیونکہ اس پر میراث ،انساب،سسرالی رشتے اور بہت سے معاشرتی مسائل مرتب ہوتے ہیں ،اسی لیے آپ دیکھیں گے کہ اس کی متعدد شرطیں ہیں۔
پس انسان کا معمولی بات پر آپے سے باہر ہونا اور طلاق دینا اس کی بیوقوفی سمجھی جائے گی۔کتنے ہی وہ لوگ ہیں جو طلاق دیتے ہیں اور پھر ہر عالم کی چوکھٹ کے چکر لگاتے ہیں کہ شاید چھٹکارے کی کوئی راہ نکل آئے اور(اپنے اس کرتوت پر)نادم ہوتے ہیں،لہذا میری نصیحت ہے کہ ان امور میں ہم جلد بازی نہ کیا کریں۔
اسی وجہ سے یہ بات شارع کی حکمت تصور ہوتی ہے کہ اس نے اپنی حائضہ بیوی کو طلاق دیناانسان پر حرام قرار دیاہے کیونکہ وہ اس سے مجامعت کی رکاوٹ کی وجہ سے اس کو ناپسند کرتاہے اور کہتاہے:یہ رکاوٹ ہم پر لمبی ہوگئی ،لہذا وہ ا س کو طلاق دے دیتا ہے۔اسی لیے شارع نے اس کو حیض کی حالت میں طلا دینے سے منع کیا ہے،اور اس طہر میں بھی طلاق دینے سے روکا ہے جس میں اس سے مجامعت کرلی ہو،اس لیے کہ ممکن ہے کہ جنین کی نشاۃ ہورہی ہو اور یہ اس سے بے خبر ہو ،اور اس لیے بھی کہ جب اس نے آخری مرتبہ مجامعت کی تو اس کی شہوت کمزور پڑگئی اور وہ بیوی میں اتنی رغبت نہ رکھتا ہو جتنی کہ وہ شخص رغبت رکھتاہے جو ایک عرصے سے علیحدہ رہنے والا ہے، لہذا انسان کو مسئلہ طلاق میں سنجیدگی اختیار کرنا چاہیے۔
لیکن اگر اس کو اس قسم کا مسئلہ در پیش ہوا اوراس نے اپنی بیوی سے کہا ہو:اگر تو وہاں جائے تو تو میری بیوی نہیں ہے یا میں نے تجھے طلاق دےدی یا اس قسم کے طلاق کے صریح یا کنائی الفاظ بولے تو ہم اس کی نیت کی طرف رجوع کریں گے اور اس سے
|