Maktaba Wahhabi

475 - 670
جانتے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اور ان کو اپنے اوپر قابو نہیں رہتا،اور ان کو اپنی بھی خبر نہیں رہتی کہ وہ زمین پر ہیں یا آسمان میں حتیٰ کہ ان کو یہ خبر نہیں رہتی کہ یہ جو ان کے پاس ہے ان کی بیوی ہے یا بازار کا کوئی آدمی؟ غصے کےیہی تین مرتبے ہیں۔پہلا مرتبہ:اس قسم کا غصہ کرنے والے کے احکام غصے سے خالی شخص کے احکام کی طرح ہیں،کیونکہ یہ ایسا غصہ ہے جس پر مواخذہ کیا جاتا ہے۔ اور انتہائی مرتبہ کے متعلق علماء کا اجماع ہے کہ غصہ کرنے والے کے قول واقرار کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا بلکہ وہ لغو ہے کیونکہ ایسے شخص کو سرے سے شعور ہی نہیں ہوتا،لہذا اس کا کلام مجنون آدمی کے کلام کی طرح ہے۔ اور درمیانہ مرتبہ جس میں انسان کو یہ شعور اور تصور ہوکہ وہ کیا کہہ رہاہے لیکن اس کو اپنے اوپر کنٹرول نہ ہو،گویا کسی چیز نے اس کو ایسا غصہ دلایا کہ وہ طلاق کا لفظ منہ سے ادا کردے۔غصے کی اس قسم میں علماء کا اختلاف ہے جبکہ صحیح بات یہ ہے کہ اس حالت میں طلاق واقع نہ ہوگی،دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ فرمان ہے: (لَا طَلَاقَ فِي إِغْلَاقٍ) [1] "غصہ کی حالت کی طلاق واقع نہیں ہوتی۔" نیز اگر آدمی کو طلاق دینے پر مجبور کیا جائے اور وہ اکراہ کے نتیجے میں طلاق دے دے تو اس کی دی ہوئی طلاق واقع نہ ہوگی،یہ بھی اکراہ ہی کی ایک صورت ہے لیکن یہ اکراہ باطنی امر کی وجہ سے ہے جس کاظہور لازمی ہے۔(فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمۃ اللہ علیہ ) اے میری بیوی! اگر تُو اپنے خاندان کے پاس رہے گی تو میری بیوی ہرگز نہ ہوگی: سوال:جب میں نے اپنے شہر سے باہر جانے کا اردہ کیا تو میری بیوی نے انکار کیا،مانی تو اس شرط پر کہ وہ اپنے خاندان والوں کے پاس رہے گی،چونکہ اس کے خاندان والے دین سے بے رغبتی رکھتے ہیں۔میں نے اس سے کہا:اللہ کی قسم اگر تو ان کے پاس رہے گی تو تُو میری بیوی ہر گز نہ ہوگی،لیکن وہ انھی کے ساتھ رہی۔کیا یہ تین طلاق معتبر ہوگی؟اس سلسلے میں کیا کرنا چاہیے؟
Flag Counter