لوگ بغیر قتل کرنے کے شراب نوشی سے باز نہ آئیں تو چوتھی مرتبہ شراب نوشی پر اس کو قتل کردیا جائے گا،لیکن جب لوگوں کاقتل کیے بغیر شراب نوشی سے بچنا ممکن ہوتو ہم اس کو قتل نہیں کریں گے۔اسی کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے پسند کیاہے۔
اور وہ لوگ جنھوں نے کہا ہے:جب اس کو تین مرتبہ کوڑے مارے جاچکیں تو چوتھی مرتبہ اس کو مطلقاً قتل کردیا جائے گا۔یہ لوگ اہل ظاہر ہیں،جیسے ابن حزم اور جو اُن سے پہلے یا بعد کے ہیں۔اور جنھوں نے کہا کہ یہ حکم منسوخ ہے وہ جمہور اہل علم ہیں۔لیکن جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ نسخ کا قائل ہونا دو شرطوں کے بغیر جائز نہیں ہے:
1۔پہلی شرط جب:(دو بظاہر متعارض روایتوں کا) جمع ممکن نہ ہو۔
2۔دوسری شرط:ناسخ کے موخر ہونے کا علم ہو۔
پس جب تک جمع ممکن ہو نسخ ممنوع ہوتا ہے کیونکہ جب نصوص میں توافق اورجمع ممکن ہو تو ان تمام میں توافق اور جمع واجب ہوگا تاکہ ہم بعض کو ملغی نہ کریں اور جب تاریخ معلوم نہ ہوتو توقف کرنا واجب ہوگا کیونکہ ان میں سے کسی ایک کے ساتھ دوسری کو منسوخ کرنا اس کو چھوڑنے سے اولیٰ ہے۔
اور دوسری طلاق کے متعلق سائل کہتا ہے کہ اس نے شدید غضب کی حالت میں طلاق دی اور غضب کے تین درجے ہیں:ابتدائی ،درمیانی اور انتہائی۔
1۔پہلادرجہ یہ ہے کہ غصہ ہلکا سا ہو جس میں انسان کو ا پنی کہی ہوئی بات کی سمجھ آئے اور اسے اپنے نفس پر کنٹرول ہوتو اس کاکوئی اثر نہیں،یعنی اس قسم کے غصے والا ا پنے کلام پر احکام مرتب ہونے کے اعتبار سے اس شخص کی طرح ہے جس کو غصہ نہ آیا ہو۔
2۔دوسرادرجہ درمیانے غصے کا ہےجو(غصے میں) انتہا کو نہ پہنچا ہو لیکن اس غصے والے کو اپنے نفس پر قابو نہیں ہوتا،گویا کہ کسی چیزنے اس پر بوجھ ڈالاتو اس نے طلاق کا لفظ بول دیا۔
3۔تیسرا درجہ انتہائی ہے جس درجے کا غصہ کرنے والا مطلقاً نہیں جانتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے؟اسے یہ علم نہیں رہتا کہ وہ زمین میں ہے یا آسمان میں،اور اس قسم کے غصے میں بعض عصبی مزاج لوگ مبتلا ہوتے ہیں کہ جب وہ غضبناک ہوتے ہیں تو نہیں
|