ہم جناب سے اس مسئلے میں حق بات کے بیان کی توقع رکھتے ہیں۔
جواب:یہ باطل قول ہے جبکہ آیت کریمہ کا مطلب یہ ہے کہ جب تم میں سے کسی شخص کی ولایت میں یتیم بچی پرورش پا رہی ہو اور وہ اس سے نکاح کرتے ہوئے ڈرے کہ وہ اس کو مہر مثل ادا نہیں کرے گا تو وہ اس کو چھوڑکر کسی اور عورت کے ساتھ شادی کے لیے رجوع کرے، اس کے علاوہ بہت سی عورتیں نکاح کے لیے موجود ہیں، اللہ نے بندے پر کوئی تنگی نہیں کی ہے۔
آیت میں اس بات کی دلیل ہے کہ دو یا تین یا چار شادیاں کرنا مشروع ہے کیونکہ تعدد ازواج نگاہ پست رکھنے اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے میں کمال درجہ رکھتا ہے اور اس لیے بھی کہ اس سے نسل بڑھتی ہے اور یہ عورتوں کی عفت و پاکدامنی کا سبب بنتا ہے اور عورتوں سے حسن سلوک کرنے اور ان سے مالی تعاون کا ذریعہ بنتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ بلا شبہ یہ عورت جس کو نصف مرد یا ثلث مرد یا ربع مرد میسر آئے وہ اس سے بہتر ہے کہ اس کو سرے سے خاوند ہی نہ ملے۔
لیکن تعداد ازواج میں عدل وانصاف اور ان کے اخراجات کی طاقت رکھنا شرط ہے، جو شخص یہ خطرہ محسوس کرتا ہے کہ وہ عدل نہ کر سکے گا تو وہ ایک ہی بیوی پر اکتفا کرے، البتہ وہ قیدی عورتوں میں سے لونڈیوں رکھ سکتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل اس کی دلیل ہے جو اس کی تائید کرتا ہے کیونکہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نو بیویاں تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
"لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللّٰـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ " (الاحزاب:21)
"بلا شبہ یقیناً تمہارے لیے اللہ کے رسول میں ہمیشہ سے اچھا نمونہ ہے۔"
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے لیے وضاحت فرمادی کہ امت میں سے کسی کوچار سے زیادہ شادیاں کرنا جائز نہیں ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ چار یا اس سے کم بیویاں ہیں۔ چار سے زیادہ بیویاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات میں سے ہے۔(ابن باز رحمۃ اللہ علیہ )
|