Maktaba Wahhabi

436 - 670
جواب:تیرے دوست نے تجھ سے جتنا بھی حسن سلوک کیا، اور اس کی بیوی نے تمہاری جتنی بھی خدمت کی، پس اس کی بیوی اس عمل کے ساتھ تیرے لیے محرم نہیں بنے گی، وہ تیرے لیے اجنبی ہے، انسان کسی دوسرے کا محرم تو صرف نسبی قرابت داری کے ذریعے یا رضاعت کے سبب یا مصاہرت (سسرالی رشتہ داری) کی وجہ سے ان حدودمیں رہتے ہوئے بنتا ہے جو شرعی نصوص میں بیان کی گئی ہیں ،لہٰذا تمہارے لیے اس عورت کو اپنے ہاتھ یا اپنے اعضاء میں سے کسی بھی عضو کے ساتھ چھونا جائز نہیں ہے اور نہ ہی تمہارے لیے سفر حج وغیرہ میں اس کا محرم بننا جائز ہے۔ تمہارے لیے حرام ہے کہ تم اس سے خلوت اختیار کرو اگر چہ وہ عورت اس کا خاوند اور اس کے بیٹے اور بیٹیاں راضی ہی کیوں نہ ہوں۔ تیرا اس کے ساتھ تعلق کسی بھی اجنبی عورت کے ساتھ تعلق کی طرح ہے، اس عورت، اس کے خاوند اور اس کے اقارب کا تم پر یہ حق ہے کہ تم ان کا شکریہ ادا کرو اور انھوں نے جو تمہاری خدمت کی ہے اس پر ان کو کسی کام میں بدنی تعاون، مال خرچ کرنے، حسن سلوک کرنے، خیر خواہی، راہنمائی اور اس طرح کے دیگر اعمال کے ذریعہ بدلہ دو جو تم اچھے انداز میں کر سکو اور اس کی قدرت رکھو اور ان کو اس کی ضرورت ہو۔(سعودی فتویٰ کمیٹی) مرد کا کسی عورت اور اس کی بھانجی کو اپنی زوجیت میں جمع کرنے کا حکم: سوال:ایک شخص نے کسی عورت سے شادی کی ،اب وہ اس پر اس عورت کی بھانجی سے شادی کرنا چاہتا ہے تو اس کا کیا حکم ہے؟ کیا یہ جائز ہے یا نہیں؟ جواب:اس کی بیوی جو اس کے نکاح میں ہے اس لڑکی کی خالہ ہے جس سے وہ اب شادی کرناچاہتا ہے ،پس جب اس لڑکی سے شادی اس کی خالہ کو زوجیت میں باقی رکھتے ہوئے کی جائے تو یہ جائز نہیں ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (( لَا تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ عَلَى عَمَّتِهَا وَلَا عَلَى خَالَتِهَا)) [1] "نہ شادی کی جائے کسی عورت سے اس کی پھوپھی یا خالہ پر۔"(سعودی فتویٰ کمیٹی)
Flag Counter