اس کی ملکیت پر مطمئن نہ ہوئی ۔میں آپ سے افادے کی امید رکھتی ہوں کہ ملکیت صحیح ہے کہ نہیں؟ کیا اس کے صحیح نہ ہونے کی بنا پرمجھ پر اس کا اعادہ حتمی طور پر لازم ہے ؟ ہمیں فائدہ پہنچائیں، اللہ آپ کو اجر سے نوازے گا۔
جواب: حیض کی حالت میں عورت سے نکاح کرنا جائز ہے ، اس میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ عقود میں اصل حلت اور صحت ہے ، الا یہ کہ اس کی حرمت پر کوئی دلیل ثابت ہو، اور حالت حیض میں نکاح کی حرمت پر کوئی دلیل نہیں ہے۔لہٰذا جب اس کی حرمت کی کوئی دلیل نہیں تو مذکورہ عقد صحیح ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
یہاں ہم کوعقد نکاح اور طلاق میں فرق کو سمجھ لینا چاہیے،پس طلاق حالت حیض میں جائز نہیں ہے اور جب ( حالت حیض میں طلاق واقع ہو تو وہ ) حرام ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر سخت برہم ہوئے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر پہنچی کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حکم دیا کہ وہ اپنی بیوی سے رجوع کریں اوراس کو پاک ہونے تک چھوڑ دیں، پھر جب اس کو حیض آئے اور وہ حیض سے پاک ہو تو اس کے بعد چاہیے تو اس کو روک لے یا اس کوطلاق دے دے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
﴿ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ وَاتَّقُوا اللّٰهَ رَبَّكُمْ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ وَتِلْكَ حُدُودُ اللّٰهِ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللّٰهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ ﴾ [الطلاق : 1]
’’ اے نبی! جب تم عورتوں کو طلاق دو تو انھیں ان کی عدت کے وقت طلاق دو اور عدت کو گنو اور اللہ سے ڈرو جو تمھارا رب ہے، نہ تم انھیں ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وہ نکلیں مگر یہ کہ کوئی کھلی بے حیائی (عمل میں) لائیں۔ اور یہ اللہ کی حدیں ہیں اور جو اللہ کی حدوں سے آگے بڑھے تو یقینا اس نے اپنے آپ پر ظلم کیا۔‘‘
|