Maktaba Wahhabi

400 - 670
پس آدمی کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے،اور نہ ہی ایسے طہر میں اس کو طلاق دے جس میں اس سے مجامعت کی ہو،الا یہ کہ اس کا حمل ظاہر ہوجائے،اور جب حمل ظاہر ہوجائے تو وہ جب چاہے طلاق دے سکتاہے،طلاق واقع ہوجائے گی۔ایک نہایت عجیب بات لوگوں میں عام ہوگئی ہے کہ حاملہ کو طلاق نہیں ہوتی۔یہ بات درست نہیں ہے، حاملہ کو طلاق ہوجاتی ہے اور اس میں طلاق کی وسعت اور گنجائش موجود ہے،لہذاس آدمی کے لیے حاملہ عورت کو طلاق دینا جائز ہے اگرچہ اس نے کچھ ہی دیر پہلے مجامعت کی ہو،برخلاف غیر حاملہ کے کہ جب اس سے مجامعت کرے گا تو وہ حیض آنے کا انتظار کرے،پھر جب ہو پاک ہو یا اس کا حمل واضح ہوجائے (تو پھر اس کو طلاق دے) اللہ عزوجل نے سورۃ"الطلاق" میں ارشاد فرمایا: "وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ " (الطلاق:4) "اورجوحمل والی ہیں ان کی عدت یہ ہے کہ وہ اپنا حمل وضع کردیں۔" یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ حاملہ کو طلاق ہوجاتی ہے، نیز ابن عمر کی روایت میں یہ الفاظ بھی مروی ہیں: " مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا ، ثُمَّ لِيُطَلِّقْهَا طَاهِرًا أَوْ حَامِلاً "[1] "(اے عمر!) اس(عبداللہ بن عمر) کو حکم دو کہ وہ اپنی بیوی سے رجوع کرے،پھر اس کو طہر یا حمل کی حالت میں طلاق دے۔" جب یہ بات تو واضح ہوگئی کہ حالت حیض میں عورت سے نکاح کرنا ایک جائز اور درست کام ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ شادی کرنے والا مرد اس حائضہ بیوی کے پاک ہونے تک اس کے پاس نہ جائے کیونکہ جب وہ اس کے پاک ہونے سے پہلے اس کے پاس جائے گا تو خدشہ اس بات کا ہے کہ وہ اس حالت میں ممنوع کام(جماع) کا مرتکب ہوجائے گا،اس لیے کہ وہ اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکے گا۔خاص طور پر جب وہ جوان ہوتو وہ عورت کے پاک ہونے کاانتظار کرے اور اپنی بیوی کے پاس اس کے پاک ہونے کی
Flag Counter