جو وہ کرتے ہیں اور ہر اس کام سے بچو جس سے وہ بچتے ہیں۔
یہ انسان جس کو طبعی طریقے سے اولاد نہیں ملی اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ کے فیصلے اور اس کی تقدیر پر راضی نہیں ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کو اس بات پر ابھارتے ہیں کہ وہ حصول رزق اور حلال کمائی کے وہی طریقے اختیار کریں جو ان کے لیے مشروع قراردیے گئے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اولاد کے حصول کے لیے بالاولیٰ ان کو مشروع طریقے اختیار کرنے پر ابھاریں گے۔(علامہ ناصر الدین البانی رحمۃ اللہ علیہ )
خاوند کا اپنی بیوی پر عمداً لعنت کرنے کا حکم:
خاوند کا اپنی بیوی پر عمداً لعنت کرنا کیا حکم رکھتا ہے؟کیا اس کی لعنت کی وجہ سے بیوی اس پر حرام ہو جاتی ہے یا وہ مطلقہ کے حکم میں ہو گی اور اس کا کفارہ کیا ہے؟
جواب:شوہر کا اپنی بیوی پر لعنت کرنا منکر کام ہے جائز نہیں ہے بلکہ وہ کبیرہ گنا ہوں میں سے ایک ہے۔نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"لعن المؤمن كقتله"[1]"مومن پر لعنت کرنا اس کو قتل کرنے کی طرح ہے۔"
اور فرمایا: (سِبَابُ الْمُسْلِم فُسُوقٌ وَقِتالُهُ كُفْرٌ)[2]
"مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے لڑائی کرنا کفر ہے۔"
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
( إِنَّ اللَّعَّانِينَ لا يَكُونُونَ شُهَدَاءَ وَلا شُفَعَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ )[3]
"بلا شبہ لعنت کرنے والے قیامت کے دن گواہ اور سفارشی نہیں بن سکیں گے۔"
لہٰذا اس پر واجب یہ ہے کہ وہ اس سے توبہ کرے اور اپنی بیوی کو جو اس نے گالی دی ہے اس کو معاف کرالے۔ اور جو سچی توبہ کر لیتا ہے اللہ اس کی توبہ قبول فرما لیتے ہیں۔ رہی اس کی بیوی تو اس کے نکاح میں بد ستور باقی ہے، اور اس کو لعنت کرنے کی وجہ سے
|