اور مسلم نے زیادہ کیا ہے:( أَنَّىٰ شِئْتُمْ ) کا مطلب ہے اگر چاہے تو اس کو منہ کے بل لٹا کر مجامعت کرے اور چاہے تو سیدھا لٹا کر،سوائے اس کے یقیناً جب مجامعت قبل(اگلی شرمگاہ) میں دبر کی جانب سے ہوگی اس حال میں کہ عورت منہ کے بل لیٹتی ہوتو بچہ بھینگا پیدا ہوگا۔
مذکورہ آیت میں اس بات کی وضاحت ہے کہ آدمی کے لیے اپنی بیوی کے ساتھ مجامعت کرنے کی کوئی بھی حالت اختیار کرنا جائز ہے چاہے تو اسے گدی کے بل لٹا لے یا منہ کے بل الٹا لٹالے،البتہ وطی عورت کی قبل(اگلی شرمگاہ) میں ہی ہونی چاہیے۔دلیل اس کی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا فہم ہے اور وہ عرب ہیں۔اللہ نے عورتوں کا نام کھیتی اس لیے رکھا ہے کہ اس سے اولاد کی امید کی جاتی ہے جبکہ دبر میں وطی کے ذریعہ اولاد کی امید نہیں کی جاتی۔مذکورہ آیت کے سبب نزول کے متعلق جو بیان کیا گیا ہے کہ پیچھے سے وطی کرنے سے جوحمل ہوتا ہے تو وہ بچہ بھینگا ہوتاہے،حالانکہ دبر میں وطی کرنے سے بالکل حمل نہیں ہوتا نہ بھینگا نہ غیر بھینگا۔احمد اور ترمذی نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے واسطے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان: "نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّىٰ شِئْتُمْ " (البقرۃ:223) کے متعلق مروی ہے، یعنی مجامعت(سیدھی جانب سے ہو یا الٹی جانب سے) ایک ہی سوراخ (یعنی اگلی شرمگاہ) میں ہونی چاہیے اور امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو حسن کہا ہے۔ ایک یہ روایت ہے، اس کے علاوہ متعدد احادیث مروی ہیں جن میں آدمی کو اپنی بیوی کی دبر میں وطی کرنے سے منع کیا گیا ہے۔اس میں سے ایک روایت وہ ہے جس کو احمد اور ابن ماجہ نے روایت کیاہے اور ایک وہ ہے جس کو احمد نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ بلاشبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"لا تأتوا النساء في أعجازهن " [1]
"عورتوں کی پچھلی شرمگاہوں میں وطی نہ کرو۔"
یا کہا:
"أدبارهن" ’’ان کی دبروں(میں وطی نہ کرو)۔‘‘
|