وہ اس کی زکوۃ ادا کرے گی ۔ اور اگر بالفرض ایک عورت کے پاس زیورات ہیں جو نصاب زکوۃ کو پہنچتے ہیں اور اس عورت کی بیٹیاں بھی ہیں اور ہر بیٹی کے پاس زیورات ہیں جو نصاب زکوۃ کو نہیں پہنچتے تو بیٹیوں کے زیورات کو جمع کر کے ان کی زکوۃ نہیں دی جائے گی کیونکہ ہر بیٹی کی دوسری سے الگ مستقل ملکیت ہے۔(فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمۃ اللہ علیہ )
قریبی رشتہ داروں کو زکوۃ دینے کی فضیلت :
سوال:کیا میرا ان بھائیوں اور بہنوں کو زکوۃ اور فطرانہ دینا درست ہے جو محتاج ہیں اور ہمارے والد کے بعد ہماری والدہ محترمہ ان کی کفالت کر رہی ہیں؟اور کیا یہ زکوۃ ان بھائیوں اور بہنوں کو دینا درست ہے جو خرچے سے قاصر تو نہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ وہ محتاج ہیں جبکہ اس کے علاوہ لوگ جن کو میں زکوۃ دیتا ہوں ،بہت زیادہ ہیں؟
جواب:تیرا اپنے اہل میں سے قریبیوں کو زکوۃ دینا زیادہ افضل ہے، ان لوگوں کو زکوۃ دینے سے جو تیرے قریبی رشتہ دارنہیں ہیں کیونکہ قریبی رشتہ دار پر صدقہ کرنا صرف صدقہ ہی نہیں بلکہ صدقہ اور صلہ رحمی ہے، الایہ کہ وہ قریبی رشتہ دار ایسے ہوں کہ ان کا خرچہ آپ کے ذمہ ہواور آپ اپنے مال کو خرچ ہونے سے بچانے کے لیے اس کو زکوۃ دیں، پس یہ جائز نہیں ہے۔جب صورت حال یہ ہے کہ وہ بھائی اور بہنیں جن کا سوال میں ذکر کیا گیا ہے فقیر ہیں اور آپ کا مال ان پر خرچ کرنے کے لیے کافی نہیں ہے تو آپ کے لیے ان کو زکوۃ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے اور ایسے ہی ان بہن بھائیوں نے اگر لوگوں کا قرض دینا ہے تو آپ اپنی زکوۃ سے ان کا قرض چکا دیں تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ قریبی رشتہ دار پر اپنے قریبی کا قرض چکانا لازمی نہیں ہے تو آپ کا اپنی زکوۃ سے ان قرضوں کو چکانا جائز ہو گا حتی کہ اگر آپ کے بیٹے یا باپ پر کسی کا قرض ہے اور وہ اپنا قرض چکانے کی طاقت نہیں رکھتے تو تو اپنی زکوۃ سے ان کے قرضے اتار سکتا ہے یعنی یہ جائز ہو گا کہ تو اپنی زکوۃ سے اپنے باپ کا اور اپنے بیٹے کا قرض چکائے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ اس قرض کا سبب
|