Maktaba Wahhabi

240 - 670
زیادہ مقدار تک پہنچ جائے تو اس میں زکوۃ ہر ہزار ریال میں سے پچیس ریال ہو گی ۔ اور چاندی کا نصاب ایک سو چالیس مثقال ہے اور چاندی کی یہ مقدار چھپن ریال یا اس کے برابر چاندی ہے تو اس میں بھی زکوۃ سونے کی طرح چالیسواں حصہ ہے رہا ہیرا اور دوسرے پتھر جب وہ پہننے کے لیے ہوں تو ان میں زکوۃ نہیں ہے، ہاں اگر وہ تجارت کے لیے ہیں تو جب وہ سونے اور چاندی کی قیمت کے حساب سے زکوۃ کے نصاب کو پہنچ جائیں تو ان میں زکوۃ واجب ہے۔(سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن باز رحمۃ اللہ علیہ ) قیمتی پتھروں اور نگینوں سے مرصع زیورات کی زکوۃ کا حکم: سوال:ان زیورات کی زکوۃ کیسے نکالی جائے گی جو خالص سونے کے نہیں ہوتے بلکہ ان میں مختلف قسم کے نگینے اور قیمتی پتھر لگے ہوتے ہیں؟کیا ان پتھروں اور نگینوں کا وزن بھی سونے کے ساتھ شمار کیا جائے گا کیونکہ سونے کو ان سے جدا کرنا مشکل ہے؟ جواب:سونا اگر پہننے کے لیے ہو تو صرف اس میں زکوۃ ہے، رہے موتی ہیرے اور اس جیسے دیگر قیمتی پتھر تو ان میں زکوۃ نہیں ہے۔ جب ہاروں وغیرہ میں موتی اور سونا دونوں ہوں تو بیوی یا اس کا شوہر یا عورت کے اولیاء غور و فکر کر کے سونے کی مقدار کا اندازہ لگائیں گے یا اس کے ماہرین کو دکھائیں گے تو جس مقدار کا غالب گمان ہو اسی پر اکتفا کیا جائے گا۔ اگر وہ مقدار نصاب زکوۃ کو پہنچتی ہو تو اس میں زکوۃ ادا کی جائے گی۔سونے کا نصاب بیس مثقال ہے جو کہ سعودی اور انگریزی جنیہ کے اعتبار سے ساڑھے گیارہ جنیہ ہے اور گراموں میں اس کی مقدار بانوے گرام بنتی ہے۔ ہر سال زکوۃ ادا کی جائے گی اور اس میں زکوۃ چالیسواں حصہ، یعنی ہر ہزار ریال میں سے پچیس ریال، اہل علم کے مختلف اقوال میں سے صحیح قول یہی ہے۔ لیکن جب زیورات تجارت کے لیے ہوں تو جمہور اہل علم کے نزدیک ان میں دیگر سامان تجارت کی طرح موتیوں اور ہیروں کی قیمت سمیت تمام کی زکوۃ ادا کی جائے گی۔(سماحۃ الشیخ عبد العزیز بن باز رحمۃ اللہ علیہ )
Flag Counter