Maktaba Wahhabi

239 - 670
رہے مردوں کے زیورات تو جو ان میں سے مباح ہیں ان پر زکوۃ نہیں ہے ،مثلاً تلوار کی نمائش کے لیے اور چاندی کی انگوٹھی۔ اور جن کا استعمال حرام ہے جیسا کہ (سونا چاندی کے) برتن تو ان میں زکوۃ ہے لیکن جن کے استعمال میں اختلاف ہے تو ان کی زکوۃ میں اختلاف ہے، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک تو ان میں زکوۃ ہے، البتہ ان کا استعمال جائز نہیں ہے، جبکہ یہ چاندی کے ہوں تو امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور احمد رحمۃ اللہ علیہ نے ان کو مباح کہا ہے ۔جہاں تک گھوڑے کے زیور کا تعلق ہے، مثلاً زین لگام وغیرہ تو جمہور علماء کے نزدیک ان میں زکوۃ ہے، جبکہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے ان کے استعمال کو منع کیا ہے ۔ ایسے ہی دوات اور سرمہ دانی وغیرہ ان میں جمہور کے نزدیک زکوۃ ہے، خواہ وہ چاندی کی ہو یا سونے کی۔(شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ ) عدم علم کی وجہ سے جس عرصہ میں زکوۃ ادا نہیں کی؟ سوال:میں ایک شادی شدہ خاتون ہوں اور میری عمر لگ بھگ اکتالیس سال ہے، عرصہ پچیس سال سے میرے پاس ایک سونے کا ٹکڑا ہے جو تجارت کے لیے تیار نہیں کیا بلکہ زیب و زینت کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ میں کبھی اس کو بیچ دیتی اور کبھی اس میں اور مال ڈال کر اس سے بہتر خرید لیتی ۔ اب میرے پاس کچھ زیور ہے اور میں نے سناہے کہ وہ سونا جو زینت کے لیے تیار کیا گیا ہو اس میں زکوۃ ہے، میں اس مسئلہ میں وضاحت چاہتی ہوں اور جب مجھ پر زکوۃ واجب تھی تو اس گزشتہ مدت کا کیا حکم ہےجس میں میں نے زکوۃ ادا نہیں کی؟ معلوم رہے کہ اب جو میرے پاس سونا ہے، اس سے گزشتہ سالوں کی زکوۃ دینے کی طاقت نہیں رکھتی ۔ جواب:تم پر اسی وقت سے زکوۃ واجب ہے جب سے تجھے علم ہوا ہے کہ زیور میں زکوۃ واجب ہے لیکن آپ کے علم سے پہلے جو سال گزرے ہیں آپ کے ذمے ان کی زکوۃ واجب نہیں ہے کیونکہ شرعی احکام علم کے بعد لازم ہوتے ہیں اور جب زیور نصاب زکوۃ یعنی بیس مثقال، جو ساڑھے گیارہ سعودی جنیہ کے مساوی ہے، کو پہنچ جائے تو اس میں چالیسواں حصہ ہے، پس جب سونے کا زیور اس مقدار یا اس سے
Flag Counter