Maktaba Wahhabi

203 - 670
((من نابه شيء في صلاته فليسبح الرجال ولتصفق النساء ))[1] "جس شخص کو نماز میں کوئی مسئلہ پیدا ہوجائے تو مرد سبحان اللہ کہہ کر اور عورتیں الٹے ہاتھ سے تالی بجا کر(اس سےآگاہ کریں۔)" جب دروازہ کھٹکھٹانے والے کو تسبیح یا تصفیق کے ذریعہ سے اس بات سے آگاہ کرنا ممکن ہوکہ گھر میں موجود مرد یا عورت نماز ادا کررہے ہیں تو ایسا ہی کیا جائے،پس اگر دوری اور عدم سماع کی وجہ سے مذکورہ آگاہی کے طریقے سے بات نہ بنے تو نمازی کے لیے خاص طور پر اپنی نفل نماز توڑنے میں کوئی حرج نہیں۔رہی فرض نماز تو جب یہ خدشہ ہو کہ دروازہ کھٹکھٹانے والا کسی اہم کام سےآیا ہے تو فرض نماز توڑنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے،پھر بعد میں شروع سے اس کااعادہ کرلے۔(سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن باز رحمۃ اللہ علیہ ) ٹیلی فون کی گھنٹی سن کر نماز چھوڑنے کا حکم: سوال:کیا ٹیلی فون کی گھنٹی سن کر نماز چھوڑنا جائز ہے؟ جواب:اگر تو سوال کرنے والی نفل نماز ادا کررہی ہے تو اس کے لیے نماز چھوڑنا کراہت کے ساتھ جائز ہے اور اگر وہ فرض نماز پڑھ رہی ہو تو نماز توڑنا حلال نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ" (محمد:33) "اور اپنے اعمال باطل مت کرو۔" لہذا جب اس نے فرض نماز ادا کرنی شروع کی تو اس کوتوڑنا حلال نہیں ہے مگر مثال کے طور پر اگر اس ٹیلی فون پر جو بات ہوگی اس پر کوئی خطرناک معاملہ مرتب ہوتا ہے تو ایسی صورت حال میں اس کے لیے نماز چھوڑنا جائز ہے۔(فضیلۃ الشیخ محمد بن عبدالمقصود) وتروں کی تعداد سوال:میں الحمدللہ اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ میں ہمیشہ پانچوں نمازیں جامع مسجد میں باجماعت پڑھتی ہوں اور اگر کسی وقت مسجد میں نماز پڑھنا ممکن نہ ہوتو اکیلی ہی پڑھ
Flag Counter