Maktaba Wahhabi

204 - 670
لیتی ہوں مگر اتنی بات ہے کہ میں عشاء کی نماز کے بعد پانچ رکعت نفل(وتر) ادا کرنے کی بجائے تین رکعتیں ادا کرتی ہوں۔ میں امید کرتی ہوں کہ مجھے اس سوال کا جواب دیا جائےگا۔نیز یاد رہے کہ میں نے اس کو مستقل عادت بنا رکھا ہے اور میں نےشہروں اوردیہاتوں کی تقریباً تمام ہی مساجد میں نصف سے زیادہ نمازیوں کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے۔میں افادے کی امید رکھتی ہوں۔اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطافرمائے۔ جواب:وتروں کی کم از کم تعداد ایک رکعت ہے اور زیادہ سے زیادہ کی کوئی حدنہیں ہے۔جب تم ایک یا تین یا پانچ یا سات یا نو یا گیارہ یا تیرہ یا اس سے زیادہ رکعات پڑھ لو گی(تو یہ جائز اور درست عمل ہوگا) کیونکہ اس مسئلہ میں وسعت ہے،جیساکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قولی اور فعلی سنت اس پر دلالت کرتی ہے۔علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب:"زاد المعاد في هدي خير العباد"میں وتر کے مسئلہ پر الگ سے کلام کیا ہے،لہذا ہم مزید فائدے کے لیے اس کی طرف رجوع کرنے کی وصیت کرتے ہیں۔(سعودی فتویٰ کمیٹی) نماز وتر کا آخری وقت: سوال:وہ آخری وقت کون سا ہے جس میں وتر کی نماز پالینا ممکن ہے؟ جواب:وہ فجر صادق طلوع ہونے سے پہلے رات کا آخری وقت ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (( صَلَاةُ اللّٰيْلِ مَثْنَى مَثْنَى ، فَإِذَا خَشِيَ أَحَدُكُمْ الصُّبْحَ صَلَّى رَكْعَةً وَاحِدَةً تُوتِرُ لَهُ مَا قَدْ صَلَّى)) [1] "رات کی نماز دو دو رکعت(پڑھنا افضل) ہے تو جب تم میں سے کوئی فجر صادق طلوع ہونے کا خطرہ محسوس کرے تو وہ ایک رکعت وتر ادا کرلے جو اس کی نماز کو طاق بنا دے گا۔" اس حدیث کی صحت پر محدثین کا اتفاق ہے۔۔(سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن باز رحمۃ اللہ علیہ )
Flag Counter