"كبر رسول الله صلي اللّٰہ عليه وسلم ثم قرا ثم كبر للركوع ثم قال:"سمع اللّٰہ لمن حمده"حتي رجع كل عظم الي موضعه"
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ اکبر کہا ،پھرقراءت کی ۔پھر رکوع جاتے ہوئے اللہ اکبر کہا،پھر کہا: سَمِعَ اللّٰهُ لِمَنْ حَمِدَهُ حتی کہ ہر ہڈی اپنی جگہ پر لوٹ آئے۔"
كيا ہم اس حدیث کو ہاتھوں کو اسی حالت پر لے جانے پر محمول کرسکتے ہیں جس طرح کہ وہ رکوع سے پہلے تھے ،یعنی دائیاں ہاتھ بائیں پر؟
جواب:یہ حدیث معروف شرعی کیفیت پر بدن کو لانے پر دلالت کرتی ہے،پس ہر عضوکا استقرار اپنی اصل وضع،یعنی ان کو نیچے لٹکانا ہی مناسب ہے۔
فائدہ: ہر وہ نص جو بہت سے اجزاء کو متضمن ہوتو اس عام نص کے کسی ایک جز پر عمل کرنا سلف سے ثابت نہیں ہے،پس اس ایک جز پر عمل کرنا غیر مشروع ہوگا۔
اس اہم قاعدے سے غفلت کرنا ہی مسلمانوں میں بہت سی بدعات پھیلانے کا پہلا سبب ہے،پس اگر ہم ان بدعات پر غور کریں تو ہمیں سنت سے ہی نہیں بلکہ قرآن کریم سے بھی ان بدعات کے تمام دلائل مل جائیں گے۔
مثال:اذان کے شروع میں(درود) اضافہ یا آیات کے ساتھ نصیحت کرنا اور رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنا۔ہمیں تو اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ ایسا کرنا بدعت ہے لیکن ایسا کرنے والے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے ذریعہ ہماری بات کو رد کرتے ہیں:
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا" (الاحزاب:56)
"اے لوگو جو ایمان لائے ہو!اس پر صلوٰۃ بھیجو اور سلام بھیجو خوب سلام بھیجنا۔"
پس اس عام نص سے یہ استدلال کیا گیا کہ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے کو کسی وقت یا جگہ کے ساتھ محدود تو نہیں کیا گیا۔
اسی لیے امام شاطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:بدعت دو قسموں میں تقسیم ہوتی ہے:
1۔بدعت حقیقیہ:یہ وہ بدعت ہے جس کی مطلق طور پر نہ کتاب اللہ میں کوئی اصل اور بنیاد ہے اور نہ ہی سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں۔
|