انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری نماز بیان کی تو دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جواب دیا:
"تو نے سچ بیان کیا ہے ،واقعتاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ایسی ہی تھی۔"
پس ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے لوگ سات صدیوں کے گزر جانے کے بعد اس جلسہ استراحت کی علت بیان کرنے چلے ہیں جبکہ ابو حمید رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں،پس وہ وہی کچھ بیان کرتے ہیں جو انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے ہوئے دیکھا ہے،وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق زیادہ جانتے ہیں اور انھوں نے یہ جلسہ استراحت کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی سیکھا تھا۔امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب"المجموع شرح المھذب" میں اس موقف کی تائید کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کو یہ لائق ہے کہ وہ جلسہ استراحت والی سنت کی محافظت کا اہتمام کریں کیونکہ یہ سنت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔
اور جب امام جلسہ استراحت نہ کرے تو مقتدی کو اس کی پیروی کرنی چاہیے کیونکہ امام کی پیروی کرنا نماز کے واجبات میں سے ایک واجب ہے،جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
" إنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ ، فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا , وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا ، وَإِذَا قَالَ : سَمِعَ اللّٰهُ لِمَنْ حَمِدَهُ , فَقُولُوا : رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ ، وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا ، وَإِذَا صَلَّى قائما فَصَلُّوا قياما وَإِذَا صَلَّى جَالِساً فَصَلُّوا جُلُوساً أَجْمَعينَ ." [1]
"امام تو صرف اس لیے بنایا گیا ہے کہ اس کی اقتداکی جائے تو جب وہ اللہ اکبر کہے تو تم بھی اللہ اکبر کہو،اور جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو،اور جب وہ سَمِعَ اللّٰهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہے تو تم کہو: رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو اور جب وہ کھڑا ہوکر نماز پڑھائے تو تم بھی کھڑے ہوکرنماز پڑھو اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھائے تو تم سب بیٹھ کر نماز اداکرو۔"
|