کہ کاش ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال نہ پوچھتے ۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"قولوا:اللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ فِي الْعَالَمِينَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ" [1]
"کہو:اے اللہ ! درود بھیج محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور ان کی آل پر جس طرح تو نےآل ابراہیم پر درود بھیجا ، اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل پر برکت نازل کر جس طرح تونے جہانوں میں آل ابراہیم پر برکت نازل کی، بلاشبہ تو تعریف کیا ہوا بزرگ ہے۔"
اسی طرح کے الفاظ بخاری و مسلم میں ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ کی حدیث سے بھی مروی ہیں۔
ثابت یہ ہوا کہ یہ احادیث جیسا کہ آپ ملاحظہ کر رہے ہیں، درمیانے اور آخری تشہد میں فرق نہیں کرتی ہیں، اسی لیے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ درمیانے اور آخری دونوں تشہدوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے کی مشروعیت کے قائل ہیں اور ابو محمد بن حزم رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی مذہب ہے اور جمہور نے ایک ایسی حدیث سے دلیل پکڑی ہےجس حدیث میں ان کے موقف کی دلیل فی الحقیقت ہے ہی نہیں کیونکہ وہ سند کے اعتبار سے ضعیف روایت ہے اور متن کے اعتبار سے اس کا مفہوم بھی ضعیف ہے، اور وہ حدیث یہ ہے کہ بلا شبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب درمیانے تشہد میں بیٹھتے تو یوں محسوس ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی گرم پتھر پر بیٹھے ہیں۔ گویا کہ صحابی یہ کہنا چاہتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم درمیانے تشہد میں تھوڑی دیر کے لیے بیٹھتے تھے ۔
یہ حدیث سند کے اعتبار سے ضعیف ہے اور اس حدیث سے جو معنی لیا گیا ہے اس کے متعلق اہل علم نے کہا ہے کہ یہ بات تو معلوم ہے کہ یقیناً آدمی جب آخری تشہد پڑھتا ہے، پھر وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اسی طرح درود پڑھتا ہے جیسا کہ درمیانے تشہد میں پڑھا تھا ،پھر وہ اس پر دعا کا اضافہ کرتا ہے، چنانچہ صحیح مسلم میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے موجود ہے کہ بلا شبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
|