نمازوں سے بہتر ہے، سوائے مسجد حرام کے۔"
اسی بناپر ہم کہتے ہیں:اگر ظہر کی اذان ہو جائے اور آپ مکہ میں اپنے گھر میں ہوں اور آپ ارادہ رکھتے ہوں کہ ظہر کی نماز مسجد حرام میں ادا کریں تو آپ کے لیے افضل یہ ہے کہ ظہر کی سنت مؤکدہ گھر میں ادا کریں، پھر مسجدحرام میں آئیں اور اس میں تحیۃ المسجد ادا کریں۔
اس لیے بعض علماء کا یہ خیال ہے کہ تین مسجدوں (مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ ) میں نماز کے ثواب کا کئی گنا ثواب فرض نمازوں کے ساتھ خاص ہے کیونکہ فرائض ہی ان مسجدوں میں ادا کیے جاتے ہیں۔ رہے نوافل تو ان میں یہ بڑھا ہوا اضافی ثواب نہیں ہے لیکن صحیح بات یہ ہے کہ یہ افضلیت عام ہے اور نفل نماز کو بھی شامل ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مسجد حرام، مسجدنبوی اور مسجد اقصیٰ میں نفل نماز ادا کرنا گھر میں ادا کرنے سے افضل ہے بلکہ نفل کا گھر میں ادا کرنا ہی افضل ہے لیکن اگر آدمی مسجد حرام میں داخل ہو کر تحیۃ المسجد ادا کرے تو یہ دوسری مساجد میں ایک لاکھ تحیۃ المسجد سے افضل ہو گی اور مسجد نبوی کی تحیۃ المسجد دیگر مساجد کی ایک ہزار تحیۃ المسجد سے بہتر سوائے مسجدحرام کے۔ اسی طرح اگر تم مسجد حرام میں داخل ہواور تحیۃ المسجد ادا کرو اور ابھی تک فرض نماز کا وقت نہیں ہوا اور تم نوافل ادا کرو تو یہ نفل نماز ایک لاکھ نماز سے افضل ہو گی، باقی نمازوں کو بھی اسی پر قیاس کرلو۔ (فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمۃ اللہ علیہ )
سوال:کیا صلاۃ القیام مسجد حرام میں افضل ہے یا گھر میں؟
جواب:جہاں تک فرض نماز کا تعلق ہے تو عورت کا گھر میں نماز ادا کرنا مسجد حرام اور دیگر مسجدوں کی نسبت افضل ہے۔رہا قیام رمضان تو بعض اہل علم کہتے ہیں کہ عورتوں کے لیے مساجد میں جاکر قیام میں شرکت کرنا افضل ہے۔ وہ اس بات کو دلیل بناتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہل کو جمع کیا اور ان کو نماز تراویح پڑھائی ۔اور یقیناً عمر رضی اللہ عنہ اور علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ ایک آدمی کو مقرر کرتے تھے تاکہ وہ مسجد میں عورتوں کو نماز تراویح پڑھائے ،مگر مجھے اس کے متعلق تردد ہےکیونکہ عمر اور علی رضی اللہ عنہما
|