ضروری ہے۔اور آدمی کے لیے عورت سے طہر کے بعد یعنی خون حیض رک جانے کے بعد وطی کرنا جائز نہیں جب تک کہ وہ غسل نہ کر لے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ ۖ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللّٰـهُ ۚ "(البقرۃ:222)
" اور ان کے قریب نہ جاؤ یہاں تک کہ وہ پاک ہو جائیں،پھر جب وہ غسل کر لیں تو ان کے پاس آؤ جہاں سے تمھیں اللہ نے حکم دیا ہے۔‘‘
اس آیت میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حائضہ سے وطی کرنے کی اجازت نہیں دی جب تک اس کا خون حیض بند نہ ہو جائے اور وہ غسل کر کے پاکی نہ حاصل کر لے، لہٰذا جس نے غسل سے پہلے اس سے جماع کیا وہ گناہ گار ہوا۔اور اس پر کفارہ اداکرنا لازم ہوا،اور اگر عورت بحالت حیض یا انقطاع حیض اور غسل سے قبل جماع کی صورت میں حاملہ ہو جائے تو اس کے بچے کو حرامی نہیں کہا جائے گا بلکہ وہ جائز اور شرعی بچہ ہے۔(سعودی فتویٰ کمیٹی)
کیا حائضہ کے لیے نماز ادا کرنا جائز ہے؟عیدالاضحیٰ اور لیلۃ القدر میں وطی کا کیا حکم ہے؟
سوال:کیاحائضہ کے لیے نماز ادا کرنا جائز ہے؟اور کیا ایام حیض میں اس سے مجامعت کرنا جائز ہے؟ عید الاضحیٰ اور لیلۃ القدر میں جماع کا کیا حکم ہے؟نیز ایک مسلمان پر کب اپنی بیوی سے جماع کرنا حرام ہو تا ہے؟
جواب:پہلی بات:حائضہ کے لیے حیض کی حالت میں نمازادا کرنا جائز نہیں ہے، اس سے نماز ساقط ہے اور حیض سے فارغ ہونے کے بعد وہ ان نمازوں کی قضا نہیں دے گی۔
جب اس کا حیض بند ہو جائے تو اس پر غسل کرنا اور موجودہ نماز اداکرنا واجب ہوگا۔
دوسری بات :خاوند پر اپنی بیوی کی فرج میں بحالت حیض مجامعت کرنا حرام ہے۔ شرمگاہ (فرج) کے علاوہ دیگر اعضاء سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔خاوند کے لیے لیلۃ القدر اور عیدالاضحیٰ کی رات مجامعت کرنا جائز ہے لیکن شرط یہ ہے کہ وہ حج یا عمرہ کا احرام
|