Maktaba Wahhabi

350 - 611
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مرضِ وفات میں فرمایا کرتے تھے: ’’عائشہ! میں اس کھانے کی تکلیف مسلسل محسوس کر رہا ہوں جو میں نے خیبر میں کھایا تھا، لیکن اب تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کھانے کے زہر سے میری شہ رگ کٹ رہی ہے۔‘‘[1] جس زہر کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تکلیف محسوس کر رہے تھے،وہ زہر یہودیوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیوں دیا؟ اُن کی آپ کے ساتھ کیا عداوت تھی اور انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زہر آلود گوشت کیوں کھلایا؟ اس کی اصل وجہ جاننے کے لیے کچھ وضاحت ضروری ہے، کیونکہ اس کے بغیر آپ یہ نہیں جان سکتے کہ یہودی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کے دشمن کیسے بنے؟ دراصل یمن کا نیا بادشاہ ’’ذونواس‘‘ یہودی تھا۔ اس نے اپنے ملک کا حکمران بنتے ہی یہ اعلان کروا دیا تھا کہ یہاں کوئی عیسائی بن کر نہیں رہ سکتا، اگر یمن میں کسی کو رہنا ہے تو یہودی بن کر رہنا ہو گا، ورنہ موت قبول کرنا ہوگی۔ جو لوگ سچے دل کے ساتھ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لاچکے تھے، انھوں نے موت کو تو گلے لگا لیا لیکن اپنا مذہب تبدیل نہ کیا۔ یوں ذونواس نے بیس ہزار سے زیادہ عیسائیوں کو آگ کے گڑھوں میں ڈال کر ہلاک کر ڈالا، مگر دوس خوش قسمت رہا، وہ اپنے بیوی بچوں سمیت بھا گنے میں کامیاب ہو گیا اور روم پہنچ گیا۔ روم پہنچتے ہی دوس نے بادشاہ کے پاس پہنچ کر ساری داستان کہہ سنائی۔ بادشاہ نے اپنے ماتحت حکمران کو حکم دیا کہ وہ ذونواس پر حملہ کر دے۔ اس وقت حبشہ میں ایک انتہائی ظالم حکمران کی حکومت تھی۔ اس کا نام ابرہہ تھا۔ ابرہہ نے ستر ہزار کا لشکر لے کو ذونواس پر حملہ کر کے اس کے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ سیکڑوں بلکہ ہزار وں یہودیوں کو قتل کر کے یمن پر قبضہ کرلیا۔ یہودیوں کی اچھی خاصی تعداد یمن سے جان بچا کر بھاگ نکلنے میں کا میاب ہو گئی۔ ان لوگوں نے عرب کے شمالی علاقے کا رخ کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہودیوں نے اپنی مذہبی کتاب تو رات میں پڑھ رکھا تھا کہ اللہ کا آخری نبی فاران کی چوٹیوں سے ظاہر ہوگا۔ تورات میں اس علاقے کی نشانی یہ بتائی گئی تھی کہ وہاں کھجوروں کے درخت ہوں گے اور خوب زرخیزی ہوگی، یوں انھوں نے یثرب، قریظہ، تیما، وادیِ القریٰ، فدک
Flag Counter