Maktaba Wahhabi

136 - 306
آپ اگر اس حدیث پر غور کریں تو روزہ رکھنے میں بھی اعتدال اور درمیانی راہ اختیار کرنے کاحکم دیا گیا ہے۔اسی طرح اس میں قیام،قرآت ِ قرآن اور عبادات میں راہ ِ توسط اختیار کرنے کا حکم ہے۔ یادرکھئے!جو شخص اپنے اوقات کو مرتب کرتا ہے،ہرصاحب حق کو اس کا پورا پورا حق ادا کرتا ہے تو پھر اسے اس بات کو خاطر میں نہیں لانا چاہیے کہ کون اس سے ناراض ہوتا ہے اور کون راضی۔آپ نہ ہی تو اپنے تمام اوقات دعوت ِدین میں صرف کریں کہ آپ کی بیوی کا حق غصب ہو اور نہ ہی دعوتِ دین سے پہلوتہی کریں کہ اللہ کے حکم کو پس پشت ڈال دیں۔ اس معاملہ میں ہم آپ کو ایک مشورہ دیتے ہیں جو ان شاء اللہ تعالیٰ آپ کے لیے آپ کا مشن میں معاون ثابت ہوگا۔آپ کوشش کیجئے کہ اپنی بیوی کو اس مقدس اور اہم مشن میں اپنا شریک بنائیں۔آپ ان کو اچھی اچھی کیسٹیں اور کتابچے دیجئے جو اس کے دل میں دعوتِ دین کا شوق پیدا کرسکیں۔اگر وہ کیسٹیں سننے اور کتابچے پڑھنے کےلیے تیار نہ ہوتو آپ اسے درس ودروس میں شریک ہونے کا شوق دلائیں تاکہ اسے دعوت دین کی اہمیت کا صحیح اندازہ ہوسکے۔آپ اسے عورتوں کے کسی ایسے تعلیمی مرکز میں وقتاً فوقتاً بھیجا کریں جس میں دعوت دین کا کام ہوتا ہو۔جب وہ آپ کے ساتھ دعوت کے عمل میں شریک ہوگی تو اسےیہ احساس نہیں ہوگا کہ اس کا خاوند اس سے دور رہتا ہے۔اس کا فارغ وقت علمی مجالس میں گزرے گا اور اسے بوریت نہیں ہوگی،ان شاء اللہ۔ دوسرا مشورہ یہ ہے کہ آپ اسے اس بات کی اہمیت کا احساس دلائیں کہ اگر وہ آپ کے ساتھ دعوت کے عمل میں شریک ہوگی تو اس کے لیے بے شمار اجر وثواب ہوگا۔آپ اسے یہ بھی سمجھائیں کہ آپ کی غیر حاضری میں اگر وہ مناسب طریقہ سے اپنے گھر کی حفاظت کرتی ہے،بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہے،اپنی عصمت کی حفاظت کرتی ہے تو یہ بھی اس کے لیے اجروثواب کا باعث ہے۔صحابیات رضوان اللہ عنھن اجمعین اپنے خاوندوں کی غیر موجودگی میں اپنے گھروں اور اپنی اولادوں کی حفاظت کیا کرتی تھیں،ان کے خاوند کئی کئی ماہ کے لیے میدان جہاد میں حاضری دیتے اور اپنے گھر سے دُور رہتے۔جب کسی عورت کا خاوند دعوت دین، حصول علم یا جہاد وغیرہ کے لیے گھر
Flag Counter