Maktaba Wahhabi

102 - 306
لیے موزوں نہیں ہوسکتا کیونکہ بعض لوگ دیندار توہوتے ہیں مگر ان کی اخلاقی حالت دگرگوں ہوتی ہے،ایسا انسان بیوی کو پریشان ہی کرے گا اور بعض لوگ بااخلاق تو ہوتے ہیں مگر بے دین ہوتے ہیں۔ایساانسان اپنی اور اپنے اہل وعیال کو کامیاب مسلمان نہیں بناسکتا،وہ اپنی ذمہ داری اور فرائض میں زبردست کوتاہی کامظاہرہ کرتا ہے اور خود اپنے اور اپنے اہل وعیال کے اخروی خسارے کا سبب بن جاتا ہے۔ سعودی عرب کے ایک اخبار میں چھپنے والا قصہ پیشِ خدمت ہے جو ان شاء اللہ تعالیٰ قارئین کی دلچسپی کا باعث ہوگا۔ ایک نوجوان لڑکی اپنی داستان بیان کرتے ہوئے کہتی ہے۔میری عمر بمشکل تین چار سال تھی کہ میرے والدین ایک ٹریفک حادثہ میں خالق حقیقی سے جا ملے۔میری پرورش میرے چچا نے کی۔میں نےجب ہوش سنبھالا توچچا کو انتہائی شفیق اور غمخوار پایا۔وہ انتہائی سنجیدہ، بردبار اور سلیم الفطرت انسان تھے،انہوں نے کبھی بھی مجھے والدین کی کمی محسوس نہ ہونے دی۔انہوں نے جہاں میری تعلیم وتربیت کا بندوبست کیاتھا وہاں میری ہرجائز خواہش بھی پوری کرنے کی کوشش کی۔دن گزرتے گئے اور میں نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ دیا۔کئی گھروں سے میرے لیے رشتے آنا شروع ہوگئے مگر میرے چچانے کسی کو ہاں نہ کی۔ دوتین سال اسی طرح گزر گئے اور میں نے ایف اے کرنے کے بعد یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔میرے چچا نے محلہ کی چند طالبات کے ساتھ میرے آنے جانے کا بندوبست کردیا اور کہا کہ بیٹی! تعلیم پر توجہ دینا اور اپنی اور اپنے خاندان کی عزت کا خیال رکھنا،میں نے ان کی بات پلے باندھ لی۔میری کلاس میں ایک لڑکی داخل ہوئی۔یہ لوگ ہمارے دور کے رشتہ دارتھے۔اسے اس کا بھائی یونیورسٹی چھوڑنے آتا۔میری اس رشتہ دار نے جو کہ اب میری سہیلی بن چکی تھی،میرا تذکرہ اپنے بھائی سے کیا جس نے آتے جاتے مجھے دیکھنا اور آنکھوں آنکھوں میں اشارے کرنا شروع کردئیے،مگر میں نے اس کی طرف کوئی توجہ نہ دی۔اس نے اپنی بہن سے ہمارے گھر کا ٹیلی فون نمبر حاصل کرلیا جو پہلی ہی ملاقات میں میں اپنی اس نئی سہیلی کو دے چکی تھی۔چند دنوں کے بعد یونیورسٹی میں چھٹیاں ہوگئیں اور میں اپنے گھر میں ہی مصروف رہنے
Flag Counter