سے اتارتے ہیں اور اس سے زمین کا سبزہ ملا جلا(نکلتا)ہے، پھر آخرکار وہ چورا چورا ہو جاتا ہے جسے ہوائیں اڑائے لیے پھرتی ہیں؛اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘
علامہ طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ بہت زیادہ مال رکھنے والوں کو اپنے مال کی کثرت پر فخر نہیں کرنا چاہیے۔اور نہ ہی اس مال کی وجہ سے دوسروں پر تکبر کرنا چاہیے، اور نہ ہی اہل دنیا اپنی دنیا سے دھوکا کھائیں۔ بے شک اس دنیا کی مثال اس فصل کی طرح ہے جو بارش کی وجہ سے بڑی خوشگوار اور اچھی ہوجاتی ہے۔پس زیادہ دیر نہیں گزرتی کہ پانی اس سے منقطع ہوجاتا ہے ، اوراس فصل کا بھی آخری وقت آنے لگ جاتا ہے۔ وہ پھر ویسے ہی خشک ہو کر چورہ ہوجاتی ہے جسے ہوائیں اڑا لے جاتی ہیں، اور اس فصل کی حالت اتنی خراب ہوجاتی ہے کہ اسے دیکھ کر نظر بھر جاتی ہے۔[پھر اس فصل سے کیوں کر دھوکا کھایا جاسکتا ہے]انسان کو چاہیے کہ اس باقی رہنے والے جہان کے لیے عمل کرے ، وہ جہاں جو ہمیشہ رہے گا ، جسے نہ ہی فنا آئے گی اور نہ ہی وہ تبدیل ہوگا۔‘‘[1]
علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ [ان آیا ت کی تفسیر میں]فرماتے ہیں:
’’ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اے محمد ! لوگوں کے لیے اس دنیا کی زندگی ، اور اس کے فنا ہونے ، زوال پذیر ہونے اور ختم ہوجانے کی مثال بیان کیجیے۔ [یہ مثال اسی طرح ہے ] جیسے کہ بارش کا وہ پانی جسے ہم آسمانوں سے نازل کرتے ہیں ، وہ [پانی] زمین کی نباتات[اور زمین میں موجود دانے وغیرہ] کے ساتھ مل جاتا ہے۔ تو وہ نباتات جوان ہوجاتی ہے ؛ اور اچھی لگنے لگتی ہے۔ اس نباتات پر پھول ؛ رونق اور تازگی چھا جاتی ہے ، پھر اس تمام کے بعد وہ نباتات خشک چورہ ہو جاتی ہے جسے ہوائیں اڑا لے جائیں اور دائیں بائیں پھینک دیتی ہیں، اور
|