بیشک اللہ تعالیٰ ہر ایک چیز پر قدرت رکھتا ؛ وہ جس کا چاہے یہ حال کردے ، اور جس کا چاہے وہ حال کردے۔ بہت زیادہ اللہ تعالیٰ دنیا کی زندگی کی مثال ایسی ہی مثالوں سے بیان کرتے ہیں۔‘‘[1]
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿ إِنَّمَا مَثَلُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا كَمَاءٍ أَنْزَلْنَاهُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعَامُ حَتَّى إِذَا أَخَذَتِ الْأَرْضُ زُخْرُفَهَا وَازَّيَّنَتْ وَظَنَّ أَهْلُهَا أَنَّهُمْ قَادِرُونَ عَلَيْهَا أَتَاهَا أَمْرُنَا لَيْلًا أَوْ نَهَارًا فَجَعَلْنَاهَا حَصِيدًا كَأَنْ لَمْ تَغْنَ بِالْأَمْسِ كَذَلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ ﴾ (یونس:۲۴)
’’پس دنیاوی زندگی کی حالت تو ایسی ہے جیسے ہم نے آسمان سے پانی برسایا پھر اس سے زمین کی نباتات، جن کو آدمی اور چوپائے کھاتے ہیں، خوب گنجان ہو کر نکلی یہاں تک کہ جب وہ زمین اپنی رونق کا پورا حصہ لے چکی اور اس کی خوب زیبائش ہوگئی اور اس کے مالکوں نے سمجھ لیا کہ اب ہم اس پر بالکل قابض ہوچکے ہیں تو دن میں یا رات میں اس پر ہماری طرف سے کوئی حکم (عذاب) آپڑا سو ہم نے اس کو ایسا صاف کر دیاکہ گویا کل وہ موجود ہی نہ تھی۔ ہم اس طرح آیات کو صاف صاف بیان کرتے ہیں ایسے لوگوں کے لیے جو سوچتے ہیں۔‘‘
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے دنیا کی زندگی کو اس طرح تشبیہ دی ہے کہ یہ دیکھنے والے کی نظروں میں زینت اختیار کرتی ہے ، اور اس زینت سے وہ دیکھنے والے کو اپنی زینت سے دھوکا دیتی ہے۔جب بھلی لگنے لگتی ہے تو انسان اس کی طرف مائل ہوتاہے، اور اس سے فریب کھا جاتا ہے۔یہاں تک کہ جب انسان
|