Maktaba Wahhabi

414 - 566
جب یہ مثال اس دنیا کے زوال اور ختم ہوجانے پر دلالت کرتی ہے اوریہ کہ آخرت لامحالہ طور پر واقع ہونے والی ہے ، اسی لیے اس کے معاملہ سے ڈرایا ہے ، اور آخرت کی خیر حاصل کرنے کی ترغیب دی گئی ہے تو آخر میں فرمایا: ﴿ وَفِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَغْفِرَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٌ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ ﴾ (الحدید: ۲۵)’’اور آخرت میں سخت عذاب اور اللہ کی مغفرت اور رضا مندی ہے اور دنیا کی زندگی بجز دھوکے کے سامان کے اور کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘ یعنی عنقریب آنے والی آخرت میں ان دوچیزوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ یا تو [اللہ کے فضل و کرم اور اس کی رحمت سے ]کسی کے نصیب میں جنت آئے گی۔اور یاپھر جہنم [اگر اللہ تعالیٰ نے معاف نہ کیا تو] یا تو سخت عذاب ہوگا اور یا پھر اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اور مغفرت۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ: ﴿ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ ﴾ یعنی دنیا ایک ختم ہوجانے والا ساز و سامان ہے، اور اس کی طرف مائل ہونے والوں کے لیے ایک دھوکا ہے۔ اس لیے کہ جب دنیا اسے بھلی لگتی ہے تو وہ اس سے دھوکا کھا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ یقین کرلیتا ہے کہ اس دنیا کے علاوہ کوئی دوسرا گھر ہے ہی نہیں، اور نہ ہی اس کے بعد کوئی معاد[آخرت ] ہے۔ یہ[دنیا تو حقیقت میں] آخرت کے گھر کی نسبت سے انتہائی حقیر اور بہت کم ہے۔‘‘[1] اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿ وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا كَمَاءٍ أَنْزَلْنَاهُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الْأَرْضِ فَأَصْبَحَ هَشِيمًا تَذْرُوهُ الرِّيَاحُ وَكَانَ اللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ مُقْتَدِرًا ﴾ (الکہف:۴۵) ’’ان کے سامنے دنیا کی زندگی کی مثال(بھی) بیان کرو جیسے پانی جسے ہم آسمان
Flag Counter