میرے ساتھ نرمی کا معاملہ نہ کریں۔ ممکن ہے وہ مجھے بہانے سے مکہ مکرمہ لے جائیں اور وہاں لے جاکر قتل کردیں،اس لیے اس نے خدشہ ظاہر کیا کہ اسے اپنی جان کا ڈر ہے، مگر عمیر بن وہب رضی اللہ عنہ نے اسے تسلی دینے کے لیے جن الفاظ کا انتخاب کیا ان سے بھی ہمارے پیارے نبی کے اعلیٰ اخلاق کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
عمیر رضی اللہ عنہ بولے:( ہُوَ أَحْلَمُ مِنْ ذَاکَ وَأَکْرَمُ) ’’وہ تمھارے تصورات اور سوچوں سے کہیں زیادہ بردبار، حوصلہ مند اورکرم وبخشش والے ہیں۔‘‘صفوان نے عمیر رضی اللہ عنہ کی گفتگو سنی تو اسے تسلی ہوگئی اور وہ ان کے ہمراہ مکہ مکرمہ لوٹ گیا۔ مکہ مکرمہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کے ہمراہ بیت اللہ ہی میں تشریف فرما تھے۔ صفوان اپنے گھوڑے پر سوار پہنچا اور سواری پر بیٹھے بیٹھے پوچھا:محمد! یہ عمیر بن وہب میرے پاس آیا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ آپ نے مجھے امان دے دی ہے؟ صفوان کی کنیت ابو وہب تھی، اور عربوں کی عادت ہے کہ جب کسی کو عزت دینا مقصود ہو تو اس کو کنیت سے بلاتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ہاں ابووہب! عمیر سچ کہتا ہے۔ ‘‘
صفوان کہنے لگا:پھر مجھے دو ماہ کی مہلت دیں تاکہ میں سوچ بچار کرلوں۔ رحیم وشفیق ، سراپا عفو وکرم، اعلیٰ اخلاق والے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا:(اِنْزِلْ یَا أَبَا وَہْبٍ)’’ ابو وہب! تم گھوڑے سے نیچے تو اترو۔‘‘ صفوان نے کہا:اللہ کی قسم! میں ہرگز نہیں اتروں گا جب تک آپ میرے سامنے وضاحت نہ
|