کریں۔ امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:( اِنْزِلْ وَلَکََ مَسِیرُ أَرْبَعَۃِ أَشْہُرٍ) ’’تم نیچے تو اترو ! تم دو ماہ کی بات کرتے ہو ہم تمھیں چار ماہ کی مہلت دیتے ہیں۔‘‘ تم اسلام کے بارے میں خوب غور وفکر کرلو۔ صفوان کو اب یقین آجاتا ہے کہ اسے امان کا پروانہ مل چکا ہے۔ وہ گھوڑے سے نیچے اترتا ہے اور اپنے گھر کی راہ لیتا ہے۔ یہ شخص مکہ مکرمہ کا سب سے بڑا اسلحہ فروش تھا۔ اس کے گھر میں تلواریں، زرہیں، ڈھالیں اور دیگر سامان حرب موجودرہتا تھا۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ مکرمہ کے فوراً بعد حنین کی طرف روانہ ہوئے جو مکہ مکرمہ سے زیادہ دور نہیں ہے۔اب ایک نئے دشمن سے واسطہ تھا، آپ کو اسلحہ کی شدید ضرورت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں تھا کہ صفوان کے پاس اسلحہ موجود ہے۔
ذرا غور کیجیے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم فاتح تھے۔ آپ چاہتے تو اپنے چند سالاروں کو حکم دیتے، وہ صفوان کے گھر سے زبردستی اسلحہ لے آتے مگر یہ بھی ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اعلیٰ اخلاق تھاکہ آپ نے صفوان کو پیغام بھیجا کہ ہمیں اسلحہ کی ضرورت ہے۔ اسلحہ دے دو۔ صفوان بڑا ہوشیار آدمی تھا، کہنے لگا:کیا آپ میرے اسلحہ پر زبردستی قبضہ کرنا چاہتے ہیں یا عاریتا ً لینا چاہتے ہیں؟
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے محبت بھرا جواب دیا۔ حدیث کے الفاظ پر ذرا غور فرمائیں:(بَلْ طَوْعًا عَارِیَۃً مَضْمُونَۃ)ً ’’تمھاری مرضی اور خوشی سے، عاریتا ً ، واپسی کی ضمانت کے ساتھ لینا چاہتا ہوں۔‘‘ اب تمھاری مرضی ہے دو یا نہ دو۔ صفوان نے یہ الفاظ سننے کے بعد مطلوبہ مقدار میں اسلحہ مسلمانوں کے حوالے کردیا۔
مسلمان اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ حنین کی طرف رواں دواں تھے۔کچھ مؤلفۃ القلوب بھی ہمراہ تھے جن میں صفوان اور اس کا ماں جایا بھائی کلدہ بن حنبل بھی شامل تھے۔ لشکر میدان حنین میں پہنچ گیا۔ آج مسلمانوں کا لشکر خاصی بھاری تعداد میں تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ کی مشیئت تھی کہ شروع میں مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے تھوڑے سے صحابہ ثابت قدم رہے۔ صحابہ کرام میں بھگدڑ مچ گئی۔ ادھر دشمن نے کمین گاہوں سے اچانک تیروں کی بارش شروع کردی۔ کلدہ بن حنبل اپنے (ماں کی
|