(أَيْ صَفْوَانُ! فِدَاکَ أَبِي وَأُمِّي) ’’ارے صفوان! میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں۔‘‘ (اَللّٰہَ اَللّٰہَ فِينَفْسِکَ أَنْ تُہْلِکَہَا) ’’اللہ کے لیے دیکھو!کیوں اپنی جان کے درپے ہو، اسے کیوں ہلاکت میں ڈالنا چاہتے ہو؟‘‘ یہ دیکھو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمامہ مبارک۔ یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی امان ہے۔میں ان سے تمھارے لیے معافی نامہ لے کر آیا ہوں۔ صفوان نے غصے کا اظہار کیا ۔ اس نے قسم کھائی تھی کہ ساری زندگی عمیر سے بات نہیں کرے گا۔ ادھر عمیر بن وہب رضی اللہ عنہ کی یہ حکمت کہ وہ نہایت محبت وہمدردی سے صفوان سے دوبارہ کہہ رہے ہیں:(أََيْ صَفْوَانُ! فِدَاکَ أَبِي وَأُمِّي) ’’صفوان! میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں۔‘‘ (ہُوَأَفْضَلُ النَّاسِ) ’’وہ دنیا کی افضل ترین شخصیت ہیں۔‘‘ (وَأَبَرُّ النَّاسِ)’’لوگوں کے ساتھ سب سے زیادہ نیکی کرنے والے۔‘‘ (وَأَحْلَمُ النَّاسِ) ’’سب سے زیادہ حلیم اور حوصلہ مند شخصیت۔‘‘ (وَخَیْرُ النَّاسِ) ’’اور لوگوں میں بہترین شخصیت۔‘‘ (اِبْْنُ عَمِّکَ) ’’سنو!وہ تمھارے چچازاد بھائی ہیں۔‘‘ (عِزُّہُ عِزُّکَ) ’’ان کی عزت ا صل میں تمھاری ہی عزت ہے۔‘‘ (وَشَرَفُہُ شَرَفُکَ) ’’ان کی سربلندی دراصل تمھاری ہی سربلندی ہے۔‘‘ (وَمُلْکُہُ مُلْکُکَ) ’’ان کی بادشاہی دراصل تمھاری ہی بادشاہی ہو گی۔‘‘
صفوان امام کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ساری صفات سن رہا تھا، برف پگھل رہی تھی، اس کی نخوت ختم ہو رہی تھی، ذہن تبدیل ہورہا تھا مگر دل میں کچھ خدشات تھے جنہیں وہ اپنی زبان پر لے آیا، کہنے لگا:إِنِّي أَخَافُ عَلٰی نَفْسِي ’’در حقیقت مجھے اپنی جان کا ڈر ہے۔‘‘
قارئین کرام! صفوان کو اپنے جرائم کی شدت کااندازہ تھا۔ اس نے سوچا ہوگا کہ ہوسکتا ہے مسلمان
|