Maktaba Wahhabi

128 - 342
عبدالعزیٰ نے آج تک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار نہیں کیا تھا۔وہ پیدل ہی مدینہ طیبہ پہنچ گیا۔ ان جیسے بے سہارا مہاجرین کے لیے جائے قرار مسجدِ نبوی ہی تھی۔ عبداللہ ذوالبجادین مدینہ طیبہ پہنچے تو رات کا وقت تھا، لہٰذا وہ مسجد نبوی ہی میں لیٹ گئے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز پڑھائی۔ صحابہ کرام کی طرف دیکھا تو ایک اجنبی چہرہ نظر آیا۔ مسجد نبوی میں اصحابِ صُفَّہ کے چبوترے پر ایک نوجوان کو دیکھا جس کی عمرتقریباً 21برس تھی۔ آپ نے سوال فرمایا:(مَنْ أَنْتَ؟) ’’تم کون ہو؟‘‘ کہنے لگا:(أَنَا عَبْدُ الْعُزَّی) ’’میں عبدالعزیٰ ہوں‘‘۔ سوال ہوا:’’تم ٹاٹ میں کیوں ملبوس ہو؟‘‘ عبدالعزیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی پوری داستان بیان کرتے ہوئے کہا:میں نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار کیا ہے اور دنیا کی ہر نعمت کو پائے حقارت سے ٹھکرادیا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس نئے ساتھی کو حوصلہ دیا اور فرمایا:’’آج سے تمھارا نام عبدالعزیٰ نہیں بلکہ عبداللہ ذو البجادین ہے۔‘‘ ذو البجادین کا معنی ہے ٹاٹ کے دو ٹکڑوں والا، لسان نبوت سے نکلا ہوا یہ نام ان کی پہچان بن گیااور عبد اللہ اس پر بہت خوش ہوئے۔ عبداللہ ذوالبجادین اب مسجد نبوی میں رہتے، وہ بڑی بلند آواز سے پورے جوش وخروش سے قرآن کریم کی تلاوت کرتے رہتے۔ وہ قرآن کریم سیکھتے اور اسے خوب پڑھتے حتی کہ انھوں نے قرآن کریم کا بہت سا حصہ پڑھ لیا۔انھیں قرآن کریم سے شدیدمحبت تھی۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تھا:(فَالْتَزِمْ بَابِي) ’’میرے دروازے کے قریب ہی رہنا۔‘‘ اور عبداللہ ذوالبجادین واقعی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے کے دربان بن گئے۔ وہ ہر وقت آپ کی خدمت میں حاضر رہتے۔ عبداللہ بڑی اونچی آواز میں ذکر و اذکار کرتے تھے ۔ ایک مرتبہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:(أَمُرَائٍ ھُوَ؟) ’’کیا وہ ریا کاری کے لیے اس قدر بلند آواز میں پڑھتا ہے؟‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا:(دَعْہُ عَنْکَ فَإِنَّہُ أَحَدُ الْأَوَّاہِینَ) ’’نہیں بلکہ وہ تو اللہ کے سامنے آہ و زاری کرنے والوں میں سے ایک ہے۔‘‘ عبداللہ ذوالبجادین مسجد ہی میں رہتے اور اونچی آواز سے قرآن کریم کی تلاوت کرتے۔ ایک دن سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی:
Flag Counter