(أَلَا تَسْمَعُ إِلٰی ہَذَا الْأَعْرَابِيِّ یَرْفَعُ صَوْتَہُ بِالْقُرْآنِ)
اس اعرابی کو دیکھیے کہ یہ کتنی اونچی آواز سے قرآن کریم کی تلاوت کر رہا ہے۔ اس کی و جہ سے لوگوں کو قرآن کی تلاوت کرنے میں دقت پیش آرہی ہے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
( دَعْہُ یَا عُمَرُ فَإِنَّہُ خَرَجَ مُھَاجِراً إِلَی اللّٰہِ وَرَسُولِہِ)
’’عمر اسے چھوڑ دو( کچھ نہ کہو)، یہ تو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کرکے نکلا ہے۔‘‘
قارئین کرام! ذرا غور کیجیے کہ عبداللہ ذو البجادین ایک عام سا شخص ہے۔ مدینہ طیبہ میں اس کا کوئی خاندان اور قبیلہ نہیں ہے، نہ ہی وہ کوئی مالدارہے، اس کے باوجود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے قریبی ساتھیوں میں شامل فرما لیا ہے۔ اسی کو اعلیٰ اخلاق کہتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اور اللہ کے رسول اس سے محبت کرتے ہیں۔
وقت گزرتے دیر نہیں لگتی۔ چند سال گزرے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم 9 ہجری میں غزوئہ تبوک کے لیے روانہ ہوئے۔ یہ ایک بڑا لشکر تھا جس میں دیگر مجاہدین اسلام کے ساتھ عبداللہ ذوالبجادین بھی شامل تھے۔ یہ جذبۂ شہادت سے سرشار اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے درخواست کی:
|